تحریف ہے۔ جن پر بوجہ تحریف کے لعنت ہوچکی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں آیت کو اس طرح پر زیرو زبر کرنا پڑے گا۔ ’’یا عیسیٰ انی رافعک الیٰ السماء ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوک الذین کفروا الیٰ یوم القیمۃ ثم منزلک الیٰ الارض ومتوفیک (آل عمران:۵۵)‘‘
اقول… ایک جماعت سلف میں سے اس تقدیم وتاخیر کی قائل ہوئی ہے۔ ان میں سے ہیں۔ ابن عباسؓ وضحاک وقتادہ وفراء وغیرہم ضحاک وقتادۃ وفراء کا قائل تقدیم وتاخیر ہونا تو مصرح ہے اور ابن عباسؓ کا اس لئے کہ ابن عباس سے تفسیر متوفیک ممیتک مروی ہے اور حالانکہ موت قبل الرفع معارض ہے۔ اثرین صحیحین کے جو ابن عباس سے منقول ہوئے تو وجہ توفیق نہیں ہے۔ مگر یہی قول بالتقدیم والتاخیر۔ پس اب یہ کہنا کہ یہودیوں کی طرح تحریف ہے۔ ان سب سلف پر تحریف کا الزام لگانا ہے۔
ناظرین! براے خدا غور فرماویں کہ کیا مرزاقادیانی اس بات کے مجاز ٹھہرسکتے ہیں کہ ابن عباس وقتادہ وضحاک وفراء وغیرہم جلیل الشان اکابر کو یہودیوں کی سی تحریف کا الزام دیویں ان اکابر پر یہودیوں کی سی تحریف کا الزام دینا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ نے کچھ ان بزرگوں کی عزت ومرتبت کا پاس نہ کیا جو تفسیر قرآن کو آپ سے بہتر جاننے والے تھے۔ علاوہ اس کے مجرد تقدیم وتاخیر موجب تحریف نہیں ہے۔ موجب تحریف وہ تقدیم وتاخیر ہے جو خلاف قواعد اس زبان کے ہو جس میں وہ کتاب نازل ہوئی ہے اور اس کے نظائر کتاب اﷲ میں نہ پائے جاتے ہوں اور کوئی دلیل اس پر نہ ہو اور اس تقدیم وتاخیر میں کوئی قاعدہ موافق علم بلاغت کے نہ ہو اور یہاں چاروں امور غیر متحقق ہیں۔ خلاف قاعدہ تو اس لئے نہیں کہ (واو) لغت عرب میں ترتیب کے لئے نہیں آتا ہے۔ مطلق جمع پر دلالت کرتا ہے نظائر اس تقدیم وتاخیر کے بکثرت قرآن مجید میں موجود ہیں۔
تفسیر کبیر میں ہے۔ ’’مثلہ فی التقدیم والتاخیر کثیر فی القرآن‘‘ دلیل اس پر آیۃ ’’وان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ واثر‘‘ صحیح ابن عباسؓ جو حکماً مرفوع ہے موجود ہے۔ اس تقدیم وتاخیر میں فائدہ موافق علم بلاغت کے یہ ہے کہ چونکہ کفار درپے قتل وصلیب تھے۔ اس لئے توفی جو واقع میں بعد رفع ہونے والی تھی۔ اس کا ذکر اہم تھا۔ مقصود یہ کہ ہم تم کو تمہاری اجل معلوم کے وقت ماریں گے۔ کفار تم کو قتل نہ کر سکیں گے۔ ان کے قتل سے ہم