نے فی زماننا تراشے ہیں۔ خواہ وہ جو قیامت تک آئندہ نکالے جاویں۔ پس اس آیت کا قطیعۃ الدلالۃ ہونا بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
قولہ… اور بخاری جو اصح الکتب ہے۔ اس میں بھی تفسیر آیت فلما توفیتنی کی تقریب میں متوفیک کے معنی ممیتک لکھا ہے۔
اقول… جواب اس کا بدووجہ ہے۔
اوّل… یہ روایت مخالف ومعارض ہے ان دو روایتوں صحیح کے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اسی ضرورت سے علماء نے اس روایت کو ماؤل کیا ہے۔
دوم… راوی اس کا علی بن طلحہ ہے۔ قسطلانی میں ہے: ’’وقال ابن عباسؓ فیما رواہ ابن ابی حاتم من طریق علی بن طلحۃ عنہ فی قولہ تعالیٰ یا عیسیٰ انی متوفیک معناہ ممتیک‘‘ اور علی بن ابی طلحۃ کو ابن عباسؓ سے ملاقات نہیں ہے اور ضعیف ہے۔ تقریب میں ہے: ’’علی بن ابی طلحۃ سالم مولیٰ بنی العباس سکن حمص ارسل عن ابن عباسؓ ولم یرہ من السادسۃ صدوق قد یخطی‘‘
خلاصہ میں ہے: ’’عن ابن عباسؓ مرسلاً وعن مجاہد والقاسم وعنہ ثور بن یزید ومعمر والثوری قال احمد لہ اشیاء منکرات وقال القسوی ضعیف‘‘
کاشف میں ہے: ’’قال احمد لہ اشیاء منکرات‘‘
میزان میں ہے: ’’قال احمد بن حنبل لہ اشیاء منکرات وقال دحیم لم یسمع علی بن ابی طلحۃ التفسیر عن ابن عباسؓ انتہٰی ملخصاً‘‘
اور بخاری جو اصح الکتب ہے۔ اس سے مراد بخاری کی وہ احادیث مرفوعہ میں جو سند کے ساتھ بخاری اپنی صحیح میں لاتا ہے نہ تعالیق سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں کہ: ’’وبما تقدم تاید حمل قول البخاری ماادخلت فی کتابی الاماصح علے مقصودہ بہ وہو الاحادیث الصحیحۃ المسندۃ دون التعالیق والآثار الموقوفۃ علی الصحابۃ فمن بعدہم والاحادیث المترجم بہا ونحو ذلک انتہٰی‘‘
قولہ… اور اگر کوئی کہے کہ رافعک مقدم اور متوفیک مؤخر ہے۔ یعنی رافعک آیت کے سر پر اور ’’متوفیک فقرہ جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا (آل عمران:۵۵) ‘‘ کے بعد اور بیچ میں یہ فقرہ محذوف ہے۔ ’’ثم منزلک الیٰ الارض‘‘ سو یہ ان یہودیوں کے طرح