مکانی ویکون معی فی درجتی فقام شاب من احدثہم سنا فقال لہ اجلس ثم اعاد علیہم فقام الشاب فقال اجلس ثم اعادہ علیہم فقام الشاب فقال انا فقال انت ذاک فالقی علیہ شبہ عیسیٰ ورفع عیسیٰ من روزنۃ فی البیت الیٰ السماء قال وجاء الطلب من الیہود فاخذوا الشبہ فقتلوہ ثم صلبوہ فکفربہ بعضہم اثنی عشر مرۃ بعد ان آمن بہ وافتر قواثلث فرق فقالت طائفۃ کان اﷲ فینا ماشاء ثم صعد الیٰ السماء فہولاء الیعقوبیۃ وقالت فرقۃ کان فینا ابن اﷲ ماشاء ثم رفعہ اﷲ الیہ وھو لاء النسطوریۃ وقالت فرقۃ کان فینا عبداﷲ ورسولہ وھولاء المسلمون فتظاہرت الکافر تان علی المسلمۃ فقتلوہا فلم یزل الاسلام طامساً حتی بعث اﷲ محمداًﷺ فانزل اﷲ علیہ فآمنت طائفۃ من بنی اسرائل یعنی طائفۃ التی آمنت فی زمن عیسیٰ وکفرت طائفۃ التی کفرت فی زمن عیسیٰ فایدنا الذین آمنوا فی زمن عیسیٰ باظہار محمد دینہم علیٰ دین الکافرین قال ابن کثیر بعد ان ساقہ بہذا للفظ عند ابن ابی حاتم قال حدثنا احمد بن سنان حدثنا ابومعاویۃ عن الاعمش عن المنہال بن عمرو عن سعید بن جبیر عن ابن عباس فذکرہ وہذا اسناد صحیح الیٰ ابن عباسؓ وصدق ابن کثیر فھٔولاء کلہم رجال الصحیح واخرجہ النسائی من حدیث ابی کریب عن ابی معاویۃ بنحوہ وقدرویت قصۃ علیہ السلام من طرق بالفاظ مختلفۃ وساقہا عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر علی صفۃ قریبۃ مما فی الانجیل انتہی‘‘ یہاں سے تاویل کی ضرورت ثابت ہوئی۔ اب اگر کوئی کہے کہ اگرچہ یہ آیت ذوالوجوہ ہے۔ مگر مرزاقادیانی نے سب وجوہ واحتمالات باطل کر دیے۔ اس طرح پر کہ معنی حقیقی توفی کے موت کے ہیں تو جواب یہ ہے کہ اوپر معلوم ہوا کہ توفی معنی حقیقی موت کے ہرگز نہیں۔ بلکہ معنی حقیقی اخذ الشیٔ وافیاً ہیں اور موت معنی مجازی توفی کے ہیں اس واسطے جس جگہ قرآن مجید وحدیث میں توفی بمعنی موت آیا ہے تو وہاں قرینہ قائم ہے۔ علاوہ اس کے آیۃ وان من اہل الکتاب میں بھی جتنے احتمالات ہمارے مخالف تھے۔ سب ہم نے بفضلہ تعالیٰ الزامی وتحقیقی طور پر باطل کر دئیے۔ خواہ وہ احتمالات ہوں کہ زمان نزول آیت سے آج تک مفسرین لکھتے چلے آئے ہیں۔ خواہ وہ جو مرزاقادیانی اور ان کے اتباع