ومؤخر اجلک الیٰ اجل کتبتہ لک وممیتک حتف انفک لاقتلا بایدیہم عن مطر الوراق قال متوفیک من الدنیا ولیس بوفاۃ موت وانما احتاج المفسرون الیٰ تاویل الوفاۃ بما ذکر لان الصحیح ان اﷲ تعالیٰ رفعہ الیٰ السماء من غیر وفاۃ کما رجحہ کثیر من المفسرین واختارہ ابن جریر الطبری ووجہ ذلک انہ قد صح فی الاخبار عن النبیﷺ نزولہ وقتلہ الدجال وقیل ان اﷲ سبحانہ توفاہ ثلاث ساعات من نہار ثم رفعہ الیٰ السماء وفیہ ضعف وقیل المراد بالوفاۃ ہنا النوم ومثلہ ہو الذی یتوفاکم باللیل ای ینیمکم وبہ قال کثیرون وقیل الواوفی قولہ ورافعک لاتفید الترتیب لانہا لمطلق الجمع فلا فرق بین التقدیم والتاخیر قالہ ابوالبقاء قال ابوبکر الواسطی المعنی انی متوفیک عن شہواتک وحظوظ نفسک وہذا بالتحریف اشبہ منہ بالتفسیر انتہٰی‘‘ یہاں سے ذوالوجوہ ہونا اس آیت کا ثابت ہوا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ جو معنی مرزاقادیانی نے کہے وہ کسی مفسر نے نہیں لکھے۔ مفسرین کے دو ہی مذہب اس بات میں ہیں یا تو یہ کہ زندہ اٹھا لئے گئے یا یہ کہ اﷲتعالیٰ نے ان کو مار کر پھر زندہ کیا اور زندہ اپنی طرف اٹھا لیا۔ یہ کسی کا مذہب نہیں ہے کہ وہ اب بھی مردہ ہیں۔ اگر کہا جاوے کہ ان تفاسیر سے معلوم ہوا کہ ابن عباس نے تفسیر انی متوفیک کے انی ممیتک کے ساتھ کی ہے تو جواب یہ ہے کہ اہل تفسیر نے ابن عباس کے اس قول کی تاویل کی ہے اور تاویل ضروری ہے۔ اس لئے کہ دواثر ابن عباسؓ کے جو بسند صحیح مروی ہیں۔ اس اثر کے معارض ومخالف ہیں۔
اوّل… وہ جو ابن کثیر وغیرہ میں مرقوم ہے: ’’عن ابن عباسؓ وان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام‘‘ اور اس کی سند اوپر مرقوم ہوئی ہے۔
دوم… وہ جو فتح البیان وغیرہ میں مرقوم ہے: ’’اخرج سعید ابن منصور والنسائی وابن ابی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباسؓ قال لما اراد اﷲ ان یرفع عیسیٰ الیٰ السماء خرج الیٰ اصحابہ وفی البیت اثنا عشر رجلا من الحواریین فخرج علیہم من عین فی البیت وراسہ یقطرمائً فقال ان منکم من یکفربی اثنی عشر مرۃ بعد ان آمن بی ثم قال ایکم یلقی علیہ شبہی فیقتل مکانی