دوم… یہ کہ یہ آیت ’’ذوالوجوہ‘‘ ہے اور مفسرین قدیماً وحدیثا اس کے معنی میں چند تاویلات لکھتے چلے آتے ہیں اور جو معنی آپ نے کہے وہ کسی نے نہیں کہے ہیں اور جب آپ نے آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ کا اس وجہ سے کہ وہ ذوالوجوہ ہے۔ قطعیۃ الدلالۃ ہونا تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ وہ معنی یہی تفسیروں میں موجود ہیں جو احقر نے بیان کئے۔ پس آیت ’’انی متوفیک‘‘ کو جو ذوالوجوہ ہے اور آپ کے مخترع معنی ایک تفسیر میں بھی نہیں لکھے ہیں۔ معنی مخترع کو قطعیۃ الدلالۃ کہنا بڑی جسارت وجرأت ہے۔ حدیث ’’اذا لم تستحی فاصنع ماشئت‘‘ کو یاد کر لیجئے اور ’’وعید من فسر القرآن برایہ فلیتبؤ مقعدہ من النار‘‘ کا بھی لحاظ رکھئے۔ اب ہم اس آیت کے ذوالوجوہ ہونے کے لئے چند تفاسیر کی عبارت نقل کرتے ہیں۔
معالم میں ہے: ’’واختلفوا فی معنی التوفی منہا قال الحسن والکلبی وابن جریج انی قابضک ورافعک من الدنیا الیٰ من غیر موت بدنک یدل علیہ قولہ تعالیٰ فلما توفیتنی اے قبضتنی الیٰ السماء واناحی لان قومہ انما تنصروا بعد رفعہ لا بعد موتہ فعلے ہذا للتوفی تاویلان احدہما انی رافعک الیّ وافیاً لم ینالوا منک شیئا من قولہم توفیت منہ کذا وکذا واستوفیتہ اذا اخذتہ تاماً والآخرانی متسلمک من قولہم توفیت منہ کذا ای تسلمتہ وقال الربیع بن انس المراد باالتوفی النوم وکان عیسیٰ قد نام فرفعہ اﷲ نائما الیٰ السماء معناہا انی منیمک ورافعک الیّٰ کما قال اﷲ تعالیٰ وھو الذی یتوفکم باللیل اے ینیمکم وقال بعضہم المراد بالتوفی الموت وروی علی بن طلحۃ عن ابن عباسؓ ان معناہ انی ممیتک یدل علیہ قولہ تعالیٰ قل یتوفکم ملک الموت فعلی ہذا لہ تاویلان احدہما ما قالہ وہب توفی اﷲ عیسیٰ ثلث ساعات من النہار ثم احیاہ ورفعہ اﷲ الیہ وقال محمد بن اسحق ان النصاریٰ یزعمون ان اﷲ تعالیٰ توفاہ سبع ساعات من النہار ثم احیاہ ورفعہ الیہ والآخر ماقالہ الضحاک وجماعۃ ان فی ہذہ الآیۃ تقدیما وتاخیرا معناہ انی رافعک الیٰ ومطہرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد انزالک من السماء انتہٰی‘‘