مقام انیسواں سورہ مؤمن میں ہے: ’’اونتوفینک‘‘ ازالہ اوہام میں یہاں دو غلطیاں ہیں۔ اوّل بجائے ۲۴، ۱۴ لکھا ہے۔ دوم یہ آیت پہلی ہو چکی ہے۔ یہاں مکرر لکھی گئی ہے۔
مقام بیسواں نحل: ’’واﷲ خلقکم ثم یتوفکم ومنکم من یرد الیٰ ارذل العمر (نحل:۷۰)‘‘ یہاں ومنکم من یردالی ارذل العمر قرینہ ہے ارادۂ موت پر۔ مقام اکیسواں حج: ’’ومنکم من یتوفی ومنکم من یرد الیٰ ارذل العمر (الحج:۵)‘‘ یہاں ومنکم من یرد قرینہ ہے ارادہ موت پر۔
مقام بائیسواں سورۃ الزمر میں ہے: ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا (زمر:۴۲)‘‘ یہ آیت اوّل دلیل ہے۔ مرزاقادیانی کے خلاف مطلوب پر یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ توفی کا لفظ موت ونوم دونوں کے لئے آتا ہے اور دونوں استعمالوں میں قرینہ کی حاجت ہے۔ موت کے لئے یہاں قرینہ لفظ حین موتہا اور نوم کے لئے والتی لم تمت فی منامہا موجود ہے۔
مقام تیئیسواں الانعام: ’’ھو الذی یتوفکم باللیل (انعام:۶۰)‘‘ یہاں توفی سے نوم مراد ہے اور قرینہ لفظ باللیل ہے۔ یہاں سے بخوبی ثابت ہوا کہ لفظ توفی کا موضوع لہ معنی کلی یعنی اخذ الشیٔ وافیاً ہے اور موت اور نوم کے معنی کے لئے قرینہ کی حاجت ہے۔ پس جب تک کوئی قرینہ قطعیہ قائم نہ ہوگا تو اس معنی کلی سے صرف نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ النصوص تحمل علیٰ ظواہرہا وصرف النصوص عن ظواہرہا الحاد قاعدہ مقررہ ہے اور یہ بھی اپنی جگہ ثابت ہوا ہے کہ اللفظ یحمل علیٰ الحقیقۃ مالم یصرف عنہا صارف۔
قولہ… بہرحال جب کہ تمام قرآن میں لفظ توفی کا قبض روح کے معنوں میں آیا ہے اور احادیث میں ان تمام مواضع میں جو خداتعالیٰ کو فاعل ٹھہرا کر اس لفظ کو انسان کی نسبت استعمال کیا ہے۔ جابجا موت ہی کے معنی لئے ہیں تو بلاشبہ یہ لفظ قبض روح اور موت کے لئے قطعیہ الدلالۃ ہوگیا۔
اقول… اس میں کلام ہے بدووجہ:
اوّل… یہ کہ اگرچہ لفظ توفی قرآن واحادیث میں بہت جگہ موت کے معنی ہیں۔ آیا ہے مگر کوئی ایک جگہ بھی ایسی نہیں کہ قرینہ وہاں قائم نہ کیاگیا ہو اور معنی حقیقی ہونا موت کا جب ثابت ہو کہ کوئی ایسی جگہ قرآن وحدیث میں آپ بتائیے کہ بلاقیام قرینہ یقینی طور پر وہاں موت مراد ہو۔