ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2013 |
اكستان |
|
اِس کا جواب یہ ہے کہ فطری اَمر پر ملامت کرنا مقصود نہیں بلکہ اِعتدال کی تعلیم مقصود ہے کہ عورتوں کو زینت میں اِنہماک نہ ہونا چاہیے باقی اِعتدال کے ساتھ زینت ضروری ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ شوہر بیوی کو زینت نہ کرنے پر مار سکتا ہے مگر یہ نہ ہونا چاہیے کہ رات دِن اِسی فکر میں رہیں لیکن اِن کا مزاج یہ ہوگیا ہے کہ رات دِن اِسی فکر میں پڑی رہتی ہیں۔ رات دِن اُن کا یہی مشغلہ ہوتا ہے ۔اِس کا علاج یہ ہے کہ زیور کا اِستعمال کم کر دیا جائے، یہ مطلب نہیں کہ اَپنے گھر میں اِستعمال کم کردو کیونکہ اَپنے گھر میں تو عمومًا عورتیں زیور پہنتی ہی نہیں اَور لباس بھی معمولی ہی پہنتی ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب کسی دُوسرے کے گھر جاؤ تو زیور کم پہن کر جاؤ اَور لباس بھی معمولی پہن کر جاؤ، باقی سارے زیور اَور قیمتی جوڑوں کو اَپنے گھر میں پہنو کیونکہ شریعت نے عورتوں کو سونے چاندی کا زیور اَور ریشم کا کپڑا اِسی لیے حلال کیا ہے تاکہ وہ شوہر کے سامنے اِس سے زینت کر سکیں۔ تو اِن کے اِستعمال کا اَصلی محل اَپنا ہی گھر ہے مگر اَب عورتوں نے اِس تعلیم کے خلاف یہ طرز اِختیار کر رکھا ہے کہ شوہر کے سامنے تو معمولی حالت میں رہیں گی اَور دُوسرے کے گھر بن ٹھن کر جائیں گی تو یہ عمل خلاف ِ شریعت بھی ہے اَور اِس سے زیور اَور لباس کی محبت بڑھتی ہے، اِس لیے عورتوں کو شریعت کی اَصل تعلیم پر عمل کرنا چاہیے کہ اَپنے گھر میں سب زیور لباس پہنا کریں اَور دُوسرے کے گھر میں معمولی زیور ولباس پہن کر جایا کریں، اِس سے زیور ولباس کی محبت اُن کے دِلوں میں کم ہوجائے گی۔ اَور سب سے بڑا مجاہدہ یہ ہے کہ شادی اَور دُوسری تقریبات (خوشیوں) کے موقع پر سادے کپڑے اَور سادہ زیور پہن کر جایا کریں، اِصلاح تو اِسی طرح ہوگی اِس کے بغیر صرف کتابیں پڑھنے اَور وعظ سننے سے کچھ نہ ہوگا۔ رہا یہ کہ یہ تو بہت دُشوار ہے دِل پر آرا چل جائے گا کہ بھری برادری میں سب لوگ تو اَچھے زیور اَور عمدہ لباس سے آئیںاَور ہم سادے لباس اَور معمولی زیور میں ہوں۔ تو صاحبو ! دُنیا کا بھی کوئی کام بغیر محنت کے نہیں ہوتا، دینداری ہی ایسی سستی کیوں ہے لوگ بغیر محنت کے دیندار بننا چاہتے ہیں۔ ١ ١ اَلمجاہد، ملحقہ حقیقت ِتصوف و تقوی ص ١٣٨ ، خیر الاثاث للانات ص ٣٧٠ ملحقہ حقیقت مال وجاہ