ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2011 |
اكستان |
|
کسی نے جائز ذرائع سے زمین حاصل کی ہے تو'' تحدید ملکیت'' کے بجائے'' تحدید اِنتفاع'' کی جائے گی کہ جتنی زمین وہ خود کاشت کر سکتا ہے یا جتنی زمین کی کاشت اُس کے گزارہ لائق آمدنی کے واسطے کافی ہے وہ اُس کی تحویل میں چھوڑ دی جائے گی۔ اِس سے زیادہ جتنی بھی زمین ہوگی وہ دُوسرے ضرورت مندوں کو نفع حاصل کرنے کے لیے دے دی جائے گی۔ ملکیت اُسی شخص کی رہے گی اِسلام میں ''تحدید ِملکیت'' کے الفاظ کے بجائے ''تحدید اِنتفاع'' پر نظر رکھی گئی ہے۔ س : اِسلام کے اِبتدائی دَور میں (بڑی) صنعتیں نہیں تھیں آج کے دَور میں یہ ذرائع آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے، کیا صنعتیں حکومت کی ملکیت ہوں گی یا نجی ؟ ج : ایسی تمام صنعتیں کہ جس کے لیے مشینیں منگانے کا بندوبست حکومت کرتی ہے اَور اُن کی رقوم کی اَدائیگی فارین ایکسچینج (FOREIGN EXCHAGE)کے ذریعہ کی جاتی ہے وہ سب حکومت کی مِلک ہوگی اُن کی آمدنی اسٹیٹ بینک میں جائے گی جو کاروبار حکومت چلانے اَور بیروزگار و محتاج لوگوں کے وظائف میں صرف ہوگی۔ (اِسی ذیل میںاِسمگلنگ بھی آتی ہے کیونکہ اُس کا بار کرنسی کی وساطت سے سارے ملک اَور عوام پر پڑتا ہے )اَلبتہ چھوٹی صنعتیں صنعتکاروں کی مِلک رہیں گی۔ س : زکات بھی اِقتصادیات کا بہت بڑا حصہ بنتی ہے جبکہ فقہ جعفریہ کے مطابق آج کل لوگ زکات سے اِنحراف کر رہے ہیں۔ ج : زکات'' اَموالِ باطنہ'' یعنی روپیہ اَور سونے اَور چاندی پر جبرًا وصول کرنا اِسلامی رُو سے غلط ہے اَلبتہ اَگر مالِک مال خود اپنی مرضی سے بیت المال کو دے دے تو اِ س کا اُسے اِختیار ہے۔ ''اَموال ِظاہرہ ''مثلاً وہ مویشی جنہیں چراگاہوں میں چرایا جاتا ہے اَور زمین کی پیداوار جن میں سبزی ترکاری سے لے کر باغات تک داخل ہیں اِسلامی حکومت عشری زمینوں سے عشر اَور خراجی زمینوں سے خراج وصول کرے گی۔ پاکستان میں قانون فقہ حنفی کا چلے گا اَلبتہ شیعہ حضرات کے لیے جو شاید تین پڑسنٹ ہیں فقہ جعفری ہوگی گویا ایک طرح کی پرسنل لا ہوگی وہ اپنی زکات اپنے لوگوں کو اپنے طریقہ پر دے سکیں گے۔