ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
ابو القاسم کی بات مان لو (کلمہ پڑھ لو )۔بیٹے نے کلمہ طیبہ کے بول بولے اور اُس کی رُوح اعلیٰ علیین میں پہنچ گئی۔ یہودی باپ سے خوش نصیب مسلمان بیٹے کی میت اصحاب ِ رسول نے وصول کر لی اور غسل کے بعد اُسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اِس خوش نصیب بیٹے نے نہ کوئی نماز پڑھی نہ کوئی اور عمل کیا بس چند لمحے اُسے کلمہ طیبہ پڑھنے اور دیدارِ رسول ۖ کے نصیب ہوئے اور درجہ اِتنا بڑھا کہ سوائے دُوسرے اصحاب رسول کے بلند سے بلند درجہ رکھنے والے غوث، قطب، ابدال، مجاہد اَور شہید بھی اُس کے درجے کو نہیں پا سکتے۔ ع میری آرزو محمد ۖ ، میری جستجو مدینہ کاش آج کے یہودی نصرانی اپنے ہم مذہب مدینہ کے اِس مذکورہ بالا یہودی کے قول پر عمل کر لیں جس نے چھوٹا سا جملہ بو ل کر اپنے بیٹے کے فردوس ِبریں پہنچنے میں مدد کی (اگرچہ خود وہ محروم رہا)۔ اور کاش ثم کاش! آج کے مسلمان کہلانے والے، اُمت ِ محمدیہ کے اَفراد، مدینہ کے اُس یہودی کے قول'' اَطِعْ اَبَا الْقَاسِمْ '' پر سو فیصد عمل کر لیں۔ حقیقت یہی ہے کہ عقائد میں، اعمال میں، عبادات میں، معاملات میں، معاشرت و اخلاق میں ہر طور پر آقا ابو القاسم ۖ کی اطاعت کی جائے گی تو دونوں جہانوں کی سعادت ۔اَور اگر یہودی کاقول تو ہم نے سن لیا، پڑھ لیا اور دُوسروں کو بھی اُس کی تبلیغ کر دی مگر خود اطاعت ابی القاسم سے محروم رہے اور یہود و نصارٰی کے اعمال و کردار اور رفتار و گفتار بلکہ اُن ہی کی تہذیب و تمدن کو سرمایہ زندگی بنا لیا تو جنت اِتنی سستی تو نہیں ہے، ہدایت اِتنی اَرزاں تو نہیں ہے کہ ہم تو دُور بھا گیں اور اللہ کریم زبر دستی ہمیں ہدایت کا خزانہ عطا فرمادیں۔ چہرہ بدلا ہے مگر سو چیں ابھی بدلی نہیں نفسِ ا مّارہ سے اپنی دوستی بدلی نہیں