ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2009 |
اكستان |
|
اُدھر قاضی صاحب کے اَحباب کو پتہ چلا تو وہ پریشان ہوئے اور حضرت سے تشویش کا اظہار کیا آپ نے فرمایا خط کو جانے دو ایسا ہی ہوگا اِنشاء اللہ۔اِس کے ساتھ آپ نے ایک خواب سنایا اور فرمایا : ''سیّدنا حسن اور حسین کو خواب میں دیکھا آپ دونوں شہزادے حوض میں ہیں میں نے قریب جاکر سلام کیا تو اُنہوں نے پانی کے چھینٹے مجھ پر پھینکے ۔ میں نے عرض کیا شہزادو! آپ کے خاندان کے غلاموں کا غلام ہوں بلکہ اُن سے بھی کمتر ،یہ شوخی کیسی ؟ اُنہوں نے فرمایا سلیمان ! یہ شوخی نہیں عطا ہے ہم جس حوض میں ہیں اُس کے چند چھینٹے تمہیں بھی عطا کر رہے ہیں یہ ''غایت المرام ''لکھنے کا اِنعام ہے ہماری طرف سے تم بھی تین پیشینگوئیاں لکھ دو وہ بھی بہت پیشینگوئیاں کرتا ہے ۔'' اِس سے معلوم ہوا کہ حضرت قاضی صاحب نے جوپیشینگوئیاں کی تھیں وہ حضرات حسنین کی طرف سے تھیں اِس لیے آپ پوری طرح مطمئن تھے ۔ قاضی صاحب کو یہ سب کچھ ''غایت المرام'' یعنی عقیدہ ٔ ختم ِ نبوت کے تحفظ میں نصیب ہوئی۔ بقیہ : دینی مسائل مسئلہ : عورت نے کہا تین ہزار روپے کے عوض میں مجھ کو تین طلاق دیدے۔اِس پر شوہر نے ایک ہی طلاق دی تو فقط ایک ہزار روپے مرد کو ملے گا اَور اگر دو طلاقیں دی ہوں تو دوہزار ۔ اگر تینوں دیدے تو پورے تین ہزار روپے عورت سے دلائے جائیں گے اَور سب صورتوں میں طلاقِ بائن پڑے گی کیونکہ مال کا بدلہ ہے۔ عدالتی یا جبری خلع : پاکستان کے عائلی قوانین کے تحت جب کوئی عورت اپنی کسی پریشانی میں عدالت سے رجوع کرتی ہے اَور خلع کی بنیاد پر تفریق حاصل کرنا چاہتی ہے اَور عدالت اُس کے حق میں فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو یہ حکم جاری کرتی ہے کہ خلع کی بنیاد پر نکاح فسخ کیا جاتا ہے جبکہ شوہر سے خلع پر رضا مندی بھی حاصل نہیں کی جاتی۔ خلع زوجین کے مابین ایک باہمی معاہدہ ہوتا ہے اَور عدالت یک طرفہ طور پر جبرًاخلع نہیں کراسکتی۔ اِس سے نکاح ختم نہیں ہوتاا ور عورت کا آگے کسی اَور سے نکاح کرنا صحیح نہیں ہوتا۔