ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
کبری تشریف نہ لائے ، پھر اتفاق سے ایک دعوت میں دونوں کی ملاقات ہو گئی ۔ امام رازی نے شیخ سے پوچھا آپ مجھ سے ملاقات کے لیے کیوں تشریف نہیں لائے ؟ اِس کے جواب میں شیخ نجم الدین کبریٰ نے فرمایا کہ ''میں ایک فقیر آدمی ہوں ، نہ میری ملاقات سے کسی کو کوئی عزت حاصل ہوسکتی ہے اورنہ دُور رہنے سے کسی میں کوئی نقص پیداہوتا ہے ''۔ امام رازی یہ جواب سن کر چونکے اورفرمایا کہ ''یہ جواب تو اہلِ ادب یعنی صوفیاء کا جواب ہے اب آپ مجھ سے حقیقت ِحال بیان فرمائیے ''۔حضرت شیخ نجم الدین کبرینے فرمایا ! '' آپ کا سرمایۂ فخر علم ہے ، لیکن خداکی معرفت تمام علوم کا سرچشمہ ہے۔ ذرامجھے یہ بتائیے کہ آپ نے خدا کو کیسے پہچانا؟ ''۔ امام رازی نے کہا ''سو دلیلوں سے ''شیخ نے جواب دیا۔ ''دلیل کی ضرورت تو وہاں ہوتی ہے جہاں پہلے کچھ شک ہو، اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یقین کا ایسانور عطا فرمادیا ہے کہ شک پاس نہیں پھٹک سکتا ، اس لیے مجھے دلیل کی ضرورت نہیں ''۔ حضرت شیخ کی اس بات نے امام رازی کو اپنے اپنا گرویدہ بنادیا اوربالآخر وہ اِن کے دست ِمبارک پر بیعت ہو گئے اور اپنی باطنی تربیت کے لیے اپنے آپ کو اِن کے حوالے کے دیا۔ (مفتاح السعادة ) شیخ نجم الدین کبریٰ رحمة اللہ علیہ سے تربیت حاصل کرنے کے بعد امام رازی ظاہری اورباطنی دونوں قسم کے علوم سے مالا مال ہوئے اوراُن کی تحریر وتقریر میں منا ظرانہ قوت ِاستدلال کے ساتھ واعظانہ سوزوگداز بھی پیدا ہو گیا۔ ابن ِخلکان اورعلامہ سبکی نے لکھا ہے کہ انہیں وعظ گوئی میں کمال حاصل تھا اوروہ عربی اورفارسی دونوں زبانوں میں وعظ کہتے تھے (طبقاتُ الشافعیہ)۔امام رازی کی تصانیف کی تعداداسّی سے متجاوز ہے اوراِن میں سے بعض کتابیں کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ان کے ابتدائی دور کی کتابیں زیادہ تر علمِ کلام ، فلسفہ ،منطق اور فلکیات وغیرہ سے متعلق ہیں۔ امام رازی کو فلسفہ اورمنطق میں مجتہدانہ بصیرت حاصل تھی ، چنانچہ انہوں نے اپنی تصانیف میں فکر اورفلسفہ کے نئے طریقے وضع کیے ، عقلی تحقیقات کے لیے بالکل نئی راہیں کھولیں، جن بے دین فلاسفہ کا سکہ ذہنوںپر جما ہو اتھا ، اُن کی عقلی غلطیوں کو واشگاف کرکے اُن کے نظریات کی چولیں ہلا دیں، اوراسلامی عقائد کو خالص عقلی استدلال سے ثابت کرکے یہ حقیقت واضح کردی کہ اسلام کا ہر عقیدہ اوراُس کی ہر تعلیم عقلِ سلیم کے عین مطابق ہے۔ پھر امام رازی کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے دقیق فلسفیانہ مباحث کو آسان کرکے پانی کردیا ۔پہلے مباحث صرف فلاسفہ ہی سمجھتے تھے لیکن فلسفہ کو آسان اسلوب میں بیان کرنے کا جو کام امام غزالی نے شروع کیا تھا ،امام رازی نے اُسے کمال تک پہنچادیا ۔