ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
امام فخر الدین راز ی رحمہ اللہ ( محمد عمر فاروق احمد پوری ، متعلم جامعہ مدنیہ جدید ) چھٹی صدی ہجری کے عالم بے مثال اورمتکلم اسلام جنہوںنے یونانی فلسفے کی عقلی موشگافیوں کا مقابلہ فلسفیانہ اور اِستدلالی انداز میں کیا اوراسلام کی حقانیت کو عقل ونقل ہر اعتبار سے ثابت کیا۔ امام فخر الدین رازی ملت ِاسلامیہ کے اُن جلیل القدر علماء اور مفسرین ِقرآن میں سے ہیں جن کی ''تفسیرکبیر ''چاردانگ عالم میں مشہور ومقبول ہے اور تفسیر قرآن کا کوئی طالب علم اِس سے مستغنی نہیں ہوسکتا ۔وہ اپنے زمانہ کے مایۂ ناز فلسفی، متکلم اور حکیم بھی تھے ،مفسر قرآن اور فقیہ بھی ، جلیل القدر صوفی اور واعظ وخطیب بھی ، اور ایک ایسے شاعر ومصنف بھی جن کی متنوع تصانیف رہتی دُنیا تک انسانیت کی رہنمائی کریں گی۔ امام رازی کا نام محمد اورلقب فخرالدین تھا، ہرات میں انہیں ''شیخ الاسلام'' کے لقب سے پکارا جاتا تھا، خراسان کے شہر ''رے''کا ایک زمانے میں انتہائی مردم خیز شہروں میں شمار ہوتا تھا جہاں بڑی بڑی صاحب ِعلم وفضل شخصیتیں پیدا ہوئیں ۔اس شہر کے باشندوں کو ''رازی'' کہا جاتا ہے۔ امام فخرالدین رازی اسی شہر میں ٢٥رمضان ٥٤٣ ھ یا ٥٤٤ھ کو پیدا ہوئے (ابن ِخلکان ج١ ص٤٧٦) ۔امام رازی نے ابتدائی علوم اپنے والد ماجد علامہ ابوالقاسم ضیاء الدین رحمة اللہ علیہ سے حاصل کیے۔ اس کے بعد خراسان کے مشاہیر اہل ِعلم سے استفادہ کرتے ہوئے مروجہ علوم کی تکمیل فرمائی ۔ اُس زمانے میں یونانی فلسفے کا بڑا چرچا تھا، اوربہت سے لوگ اس فلسفے کے زیرِاثردین کے بعض عقائد میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہورہے تھے۔ اس لیے اُس دور کے علماء نے یونانی فلسفے کا پوری ژرف ِنگاہی سے مطالعہ کرکے اِس کی تردید کے لیے علم ِکلام کے نام سے ایک مستقل علم کی بنیاد ڈالی جس میں اسلام کے عقائد کو خالص عقلی اورفلسفیانہ دلائل سے ثابت کیا جاتا تھا اوریونانی فلسفے نے جو عقلی مغالطے پیدا کررکھے تھے اُن کی مفصل تردید کی جاتی تھی۔ امام فخرالدین رازی نے اِسی علمِ کلام کو اپنا خصوصی موضوع بنایا اوراس میں جو علماء فلسفہ وکلام میں بطورِ خاص مشہور تھے، اُن سے تمام عقلی علوم کی خصوصی تربیت حاصل کی ۔ امام رازی نے اپنی تنگ دستی اور افلاس کے باوجود حصولِ علم کے لیے بڑے بڑے سفر کیے ، اور اس غرض کے لیے مشقت برداشت کی۔اِسی دوران انہوںنے ایسے لوگوں سے بڑے معرکةالآراء اور کامیاب مناظرے کیے