ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
جویونانی فلسفے سے مرعوب ہوکر اسلامی عقائد میں کتربیونت کرنا چاہتے تھے۔ ان کے مناظرات کا ایک مجموعہ کتابی شکل میں شائع بھی ہو چکا ہے، اس میں وہ خود لکھتے ہیں : ''میں نے ماوراء النہر کے جنوبی علاقوں کا سفر کیا تو سب سے پہلے شہر بخارا پھر سمرقند پہنچا، وہاں سے خجند اورخجند سے ناکت کا سفر کیا، اوراِن تمام شہروں کے سربرآوردہ اورافاضل سے مجھے مناظرات کا اتفاق ہوا۔(مناظرات ِامام رازی ص ١٢،طبع دکن ) رفتہ رفتہ امام رازی کا دورِ افلاس ختم ہوا اُن کے علم وفضل اور قوتِ استدلالی کی شہرت دُور دُور پھیل گئی ،وہ جس شہر میں جاتے وہا ں کے علماء وصلحا ء اور اُمراء وسلاطین اِن کی زیارت کو قابل فخرسمجھتے تھے۔ اُس زمانہ میں ہندوستان پر سلطان شہاب الدین غوری اورخراسان پراُ ن کے بھائی سلطان غیاث الدین غوری کی حکومت تھی۔ اِن دونوں بھائیوں نے امام رازی کا شہرہ سنا تو اُن کی بڑی قدر کی ۔سلطان غیاث الدین نے ہرات میں جامع مسجد کے قریب اُن کے لیے ایک بڑامدرسہ بنوادیا جس میں دُور دراز کے طلبا ء امام رازی کے علم وفضل سے مستفید ہوتے تھے۔امام رازی نے ایک زمانہ میں مستقلاً سلطان شہاب الدین غوری کے لشکر میں قیام فرمایا تھا جہاں وہ ہر ہفتے وعظ کہا کرتے تھے اوراُن کے وعظ میں اکثر سلطان خود شریک ہوتا تھا ۔ایک روز وعظ کے دوران امام رازی نے براہ ِراست سلطان سے مخاطب ہو کر کہا کہ : ''اے سلطان ! نہ تیر اقتدار قائم رہے گا ،نہ رازی کا تملق ونفاق باقی رہے گا ''۔ اِس پر سلطان زارو قطار رونے لگا ۔(منتخب التواریخ ) اُدھر سلطان علاء الدین خوارزمی نے جو عراق سے لے کر ترکستان تک ایک وسیع مملکت پر حکومت کرتا تھا امام رازی کی بہت قدر کی ،اپنے شہزادے محمد بن تکنش کو ان کا شاگرد بنایا ، چنانچہ جب محمد بن تکنش بادشاہ بنا تو اُس نے امام رازی کو اپنے دربار میں سب سے زیادہ بلند مقام دیا (ابن ِخلکان ج١ص ٤٧٥)۔ اس کے باوجود امام رازی بادشاہوں کے سامنے حق کی تبلیغ سے نہیں چوکتے تھے ۔ ما ل و دولت اورجاہ ومنصب کے اعزازات حاصل کرنے کے بعد اگرچہ وہ شاہانہ زندگی بسر کرنے لگے تھے لیکن اُن کے علمی مشاغل میں کوئی کمی نہیں آئی ،اور درس وتدریس کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ اُن کے شاگردوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ جب اُن کی سواری چلتی تو تین سو شاگرد ساتھ چلتے تھے ۔ امام رازی کے زمانہ میں ہرات میں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ رحمة اللہ علیہ اُونچے درجے کے اولیاء اللہ میں سے تھے، امام رازی ہرات پہنچے تو سارا شہر اُن سے ملاقات کے لیے اُمڈ آیا، لیکن شیخ نجم الدین