ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
شہر کے لیے خود فناء کا ہونا ضروری نہیں : مااعدلحوائج اھلہ( جوجگہ شہر والوں کی ضرورتوں کے لیے مقرر ہو ) کے مفہوم ِمخالف سے نکلا کہ اگر حوائج کے لیے جگہ مقرر نہ کی گئی تو فناء بھی نہ ہوگا۔ ''منٰی'' اور''مزدلفہ'' کومکہ مکرمہ کا محلہ یافناء کہنے والوں کے دلائل اوراُن کے جواب پہلی دلیل : جامعہ اشرفیہ کے مفتی شیر محمد صاحب اپنے فتوے میں لکھتے ہیں : ''اب صورت حال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی آبادی منٰی سے بھی متجاوز ہو چکی ہے اورمنٰی مکہ مکرمہ کا ایک محلہ ہے'' ۔ (مؤرخہ ذوالحجہ ١٤٢٠ھ ) اس عبارت کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کی آبادی بڑھتے بڑھتے منٰی کے اندر پہنچی بلکہ پھر منٰی سے بھی آگے نکل گئی ہے اور جیسے مکہ مکرمہ کے دیگر آباد محلے ہیں اِسی طرح منٰی بھی مکہ مکرمہ کا محلہ بن گیا ہے ۔یہ بات حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ منٰی میں سرے سے آبادی اور مکانات نہیں ہیں جبکہ محلہ اُس جگہ کو کہتے ہیں جس میں مکانات اورگلیاں ہوں۔ مدرسہ شاہی مراد آباد کے مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب نے بھی مفتی شیر محمد صاحب والی بات ہی کچھ مختلف انداز میں کہی ہے ، وہ لکھتے ہیں : '' منٰی کی آبادی صدیوں تک مکہ مکرمہ کی آبادی سے بالکل الگ رہی ہے اوردونوں کے درمیان صدیوں تک ویران میدان اورپہاڑوں کا فاصلہ رہاہے جن میں کسی قسم کی آبادی اورعمارت نہیںتھی اِس لیے مکہ اورمنٰی کے درمیان مسلسل آبادی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو مستقل طورپر الگ الگ آبادی قراردیا گیا تھا جیسا کہ ماضی کے تمام فقہاء نے تسلسل آبادی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو الگ الگ آبادی قراردیاتھا ۔اوراب ادھر ماضی قریب میں منٰی اورمکہ کے درمیان تسلسل آبادی کی وجہ سے دونوں کے درمیان کسی قسم کا انفعال باقی نہیں رہا بلکہ متصل ہو کر ایک ہی آبادی جیسی ہو گئی ہے''۔ (انوارِرحمت ص٧٢)