ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
مسئلہ : یہی حکم اُس شخص کا ہے جس کی عقل میں زیادہ بڑھاپے کے سبب فتور آگیا ہو اوررکعتوں کی تعداد اوررکوع وسجودوغیرہ یاد نہ رکھ سکتا ہو تو دُوسرے شخص کے بتلانے سے اِس کی نماز دُرست ہو جائے گی اوراگر کوئی بتلانے والا نہ ملے تو اپنی غالب رائے پر عمل کرے۔ متفرق مسائل : مسئلہ : مریض اپنی نماز میں قرأت وتسبیح اورتشہد و دُرود ودُعا اِسی طرح پڑھے جیسے تندرست پڑھتا ہے۔اگر اِن سب یا کچھ سے عاجز ہو تو چھوڑدے۔ تندرست اورمریض میں صرف اُن چیزوں میں فرق ہے جن میں مریض عاجز ہے اورجن پر مریض قادر ہے اُن کا حکم اُس پر تندرست کی مانند ہے۔ مسئلہ : فالج گرا اور ایسا بیمار ہو گیا کہ پانی سے استنجا نہیں کرسکتا تو کپڑے یا ڈھیلے سے صاف کرلے اوراِسی طرح نماز پڑھے ۔اگر خود تیمم نہ کرسکے تو دوسرا تیمم کرادے ۔اگر ڈھیلے یا کپڑے سے بھی صاف کرنے کی طاقت نہیں ہے تو بھی نماز قضا نہ کرے ،اسی طرح نماز پڑھے ۔کسی اورکو اِس کے بدن کا دیکھنا اورصاف کرنا درست نہیں، نہ ماں باپ کو ،نہ بیٹے بیٹی کو ،البتہ بیوی کو اپنے میاں اورمیاں کواپنی بیوی کا بدن دیکھنا درست ہے ،اس کے سوا کسی اورکودرست نہیں ۔ مریض کے ستر کے حصے سے نجاست دھونے کی ضرورت پڑے تو موٹا کپڑا مریض کے جسم پر رکھ کر اُس کے اندر سے اپنے ہاتھوں پر موٹا کپڑا لپیٹ کردھودیں ۔اسی طرح سے مریض کے زیرِناف بال بھی دُور کیے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ : اگر کسی کی بیوی ایسی بیمار ہو کہ خود وضو نہ کرسکے تو خاوند پر اُس کو وضو کرانا واجب نہیں ہے، اسی طرح اگر خاوند ایسا بیمار ہو تو بیوی پر اُس کو وضو کرانا واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر بیوی خاوند سے یا خاوند بیوی سے امداد طلب کرے اوروہ مدد کرے تو وضو کرنا فرض ہے اور تیمم جائز نہیں، اگرچہ امداد کرنا اُن پر واجب نہیں تھا۔ مسئلہ : اگر کوئی شخص ایسا بیمار ہے کہ نماز کے کسی خاص رُکن پر بغیر حدث ہوئے قادر نہ ہو تو وہ رُکن اِس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا یعنی وہ حدث نہ کرے بلکہ اُس رکن کو چھوڑ دے۔ پس اگر کسی شخص کے زخم ہو اوراس کی وجہ سے جب وہ سجدہ کرتاہے توزخم بہنے لگتا ہے اوراس کے علاوہ رکوع وقیام اورقرأت پر قادر ہے تو اُس کو چاہیے کہ بیٹھ کر اشاروں سے نماز پڑھے یہی مستحب وافضل ہے ۔ لیکن اگر قیام وقرأت اوررکوع کھڑے ہو کر کرے اورسجدہ بیٹھ کر اشارہ سے ادا کرے تب بھی جائز ہے لیکن افضل نہیں ۔