ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب کی یہ بات حقیقت کے بالکل برعکس ہے ۔ماضی بعید میں منٰی میں آبادی ہونا تو تسلیم ہے لیکن موجودہ دور میں تو منٰی میں سرے سے آبادی ہے ہی نہیں جو تسلسل کے باعث مکہ مکرمہ کی آبادی سے متصل ہو سکے۔ دوسری دلیل : جامعہ اشرفیہ کے مفتی شیر محمد صاحب اپنے فتوے مؤرخہ ذوالحجہ ١٤٢٠ھ میںلکھتے ہیں : '' منٰی اورمکہ مکرمہ کی بلدیہ ایک ہے '۔'(رسالہ ندائے شاہی ،دسمبر٢٠٠٤ء ص٥٣) ہم کہتے ہیں کہ بلدیہ تو ایک انتظامی ادارہ ہے جس کے ذمہ علاقہ کی دیکھ بھال اورصفائی ستھرائی ہوتی ہے۔ ایک ادارہ کو محض انتظامی طورپر شہرسے باہر کا صحرا اورجنگل بھی دیکھ بھال کے لیے دے دیا جائے تو اِس سے اُس صحرا اورجنگل کی شرعی حقیقت نہیں بدلتی اوریوں شرعی حکم میں بھی کچھ تبدیلی نہ ہوگی۔ اوراگر ایسا ہو کہ خود سعودی حکومت نے منٰی کے ویرانے کو مکہ شہر کا حصہ سمجھ کر اُس کو مکہ مکرمہ کی بلدیہ کے ماتحت کردیا ہوتو سعودی حکومت کا ایسا سمجھنا بذاتِ خود کوئی شرعی دلیل وحجت نہیں ہے۔ تیسری دلیل : ''وہاں کا بڑاہسپتال سال بھر اپنی خدمات انجام دیتا رہتا ہے ، نیز رابطہ عالمِ اسلامی کا دفتر بھی کھلا رہتا ہے اورشاہی محل بھی آباد رہتا ہے ''۔( رسالہ ندائے شاہی ،دسمبر ٢٠٠٤ ص٥٣) ہسپتال کی بات تو ہم اُوپر ذکرکرچکے ہیں ۔ رابطہ عالم اسلامی کے دفتر کا وہاں ہونا کسی انتظامی سہولت کی وجہ سے ہوگا ورنہ نہ تو اہلِ مکہ کی ضرورت وحاجت کا اِس سے کچھ تعلق ہے اورنہ ہی خاص منٰی میں اِس دفتر کی تعمیر کی کوئی مجبوری ۔ہاں حج کے دنوں میں اِس ادارہ کے مہمانوں کی سہولت کے لیے اِس دفتر کا وہاں ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ رہا شاہی محل تو وہ منٰی کی حدود کے ساتھ ساتھ بنا ہوا ہے ۔ وہاں عام طورسے محافظ اوردیگر عملہ رہتا ہے اورشاہی محل کا وہاں ہونا اہل ِمکہ کی کوئی ضرورت وحاجت نہیں، محض حکمرانوںکی آسائش ہے۔ غرض مندرجہ بالا بنیادوں پر پورے منٰی کو مکہ مکرمہ کا فناء قراردینا قابلِ تسلیم نہیں ۔