ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
دونوں میاں بیوی اللہ کی یاد میں رہے ۔ اُن کے بعض خاص لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا بات ہے( اتنی جلدی شادی کرنے کی وجہ کیا تھی حالانکہ پہلے آپ انکار فرماتے تھے؟) ۔فرمایا کہ بات یہ تھی کہ میں سورہا تھا میں نے دیکھا کہ میدانِ محشر قائم ہے اور پُل ِصراط پر لوگ گزر رہے ہیں، ایک شخص کو دیکھا کہ اُس سے چلا نہیں جاتا لڑکھڑاتا ہوا چل رہا ہے، اُسی وقت ایک بچہ آیا اورہاتھ پکڑ کر آناًفاناً (یعنی فوراً) اس کو لے گیا ۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے ؟ ارشا دہو اکہ یہ اِس کا بچہ ہے جو بچپن میں مر گیا تھا یہاں اِس کا رہبر ہو گیا،اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے خیال آیا کہ میں اِس فضیلت سے محروم نہ رہوں، شاید بچہ ہی میری نجات کا ذریعہ ہوجائے ، اس لیے میں نے نکاح کیا تھا اور میرا مقصود حاصل ہو گیا ۔ (الدنیا ملحقہ دُنیا وآخر ت ص ٩٨) بعض اولاد وبالِ جان اورعذاب کا ذریعہ ہوتی ہے : یاد رکھو جس طرح اولاد ہونا نعمت ہے اسی طرح نہ ہونا بھی نعمت ہے بلکہ جس کے نہ ہوئی ہو یاجس کے ہو کر مرگئی ہو اُس کو اوربھی زیادہ شکر کرنا چاہیے۔ صاحبو! آج کل کی تو اولاد عموماً ایسی ہوتی ہے کہ وہ خدا سے غافل رہنے والی ہوتی ہے، پس جس کے نہ ہو وہ شکر کرے کہ اللہ تعالیٰ نے سب فکروں سے آزاد کیا ہے، اُن کو چاہیے کہ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کو یاد کریں ۔ بعض لوگوں کے لیے تواولاد عذاب ِجان ہو جاتی ہے ۔جیسے منافقین کے بارے میں حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : فَلا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَلَا اَوْلَادُھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا '' اے محمد( ۖ )آپ کو اِن کے مال اوراولاداچھے نہ معلوم ہوں، اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتے ہیں کہ اِن مالوں اوراولادوں کی وجہ سے اِن کو اِس دُنیا کی زندگی میں عذاب دیں''۔ واقعی بعض لوگوں کیلیے تو اولاد وبالِ جان ہی ہو جاتی ہے، بچپن میں توان کے پیشاب پائخانہ میں نمازیں برباد کرتے ہیں، جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے طرح طرح کی فکریں ہو جاتی ہیں کہ ان کے لیے جائیداد ہو روپیہ ہو گھر ہو خواہ دین رہے یا نہ رہے ،لیکن جس طرح بن پڑے گا اِن کے لیے دُنیا سمیٹیں گے ۔اورہر وقت اِسی دُھن میں رہیں گے ۔حلال وحرام میں بھی کچھ تمیز نہ کریںگے۔ پس ایسی اولاد کا نہ ہونا ہی نعمت ہے جن لوگوں کے اولاد نہیں اُن پر خدا کی بڑی نعمت ہے اگر اولاد ہوتی تواُن کی کیا حالت ہوتی ، واللہ اعلم ۔ (الدنیا ص١٠٠)