ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
خوداحمد رحمة اللہ علیہ کا ائمہ سنت میں شمار ہوتا ہے۔ حماد بن زید، سفیان بن عیینہ اورامام مالک رحمہم اللہ سے احادیث کی تعلیم حاصل کی تھی اور امام علمِ حدیث یحییٰ بن معین ان کے شاگردوں میں ہیں۔ احمد بن نصر رحمہ اللہ نے خلیفہ کے سامنے کھلے دل سے مان لیا تھا کہ میں نے یہ کارروائی اقامت ِسنت کے لیے کرنی چاہی تھی اورخلیفہ واثق نے اِس کا اثر زیادہ نہیں لیا تھا لیکن جب مجلس شاہی میں عقیدہ کے بارے میں سوالات ہوئے تو اُس نے خود اپنے ہاتھ سے ان کو شہید کیا ۔ اور عمرو بن معدیکرب کی صمصامہ نامی مشہور تلوار سے وار کیے ۔اس کے بعد ان کا سرمبارک سرعام الگ لٹکا دیا گیا اورجسم ایک تنے سے الگ باندھ دیا گیا اور پہرہ بٹھا دیا گیا ۔ ٢٨شعبان ٢٣١ھ کو ان کا سرمبارک لٹکایا گیا، ٢٣٧ھ کو عید الفطر کے ایک یا دو دن بعد اُتار اگیا،باطل کا عروج اورظلم اپنی حد کو پہنچ چکا تھا ،خد ا نے کیاکہ واثق بھی اِن کے شہید کرنے کے بعد چین سے نہ رہا،بیمار رہنے لگا تھا حتی کہ اس واقعہ کے ایک سال چند ماہ بعد ہی خو واثق ٣٦ سال کی عمر میں ٢٣٢ھ کو بعارضہ استسقاء مرگیا۔اور ٢٤ذی الحجہ٢٣٢ھ بروز چہار شنبہ زوال کے وقت متوکل علی اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی اوروہ خلیفہ ہوا۔ '' خدا کی راہ میں قربانیوں کی قبولیت اور قدرتی طورپر اصلاحِ حال کی ابتداء '' بعض ارکان دولت نے احمد بن نصر کی شہادت کے وقت اوربعد میں عجیب حالات دیکھے تھے ۔ ان میں عبدالعزیز بن یحیٰ الکتانی بھی ہیں، انہوں نے مناسب موقع پا کر متوکل سے احمد بن نصر رحمة اللہ علیہ کے بارے میں ایک واقعہ نقل کیا کہ ان کے شہید ہونے کے بعد بھی اِن کے سر کے حصہ سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز ایسی آتی رہی جیسے زبان پڑھتی ہو۔ اس بات کوسن کرمتوکل محزون اور خوفزدہ ہوا کہ بھائی نے ایسے امام مقرب بارگاہ کو شہید کرکے غلطی کی ، اتنے میں اس کا وزیر محمد بن عبدالملک بن الزےّات آگیا، اُس سے متوکل نے کہا کہ میرے دل میں احمد بن نصر کے بارے میں تردد ہے ۔ اس نے جواباًبیان دیا کہ امیرالمؤمنین واثق نے احمد بن نصرکو مسلمان نہیں بلکہ کافر ہونے کی حالت میں مارا تھا۔ اگر یہ حلف غلط ہو تو اپنے بارے میں کہا کہ خدآگ میں جلائے ۔ پھر ھرثمہ آیا، اُس نے اسی طرح کا حلفیہ اور خود کو بددُعا والا بیان دیا کہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے۔ پھر احمد بن ابی دُئواد آیا، اُس نے بھی اسی طرح کا قسمیہ بیان اور اپنے کو فالج کی بددُعا دی۔ مگر متوکل کے ذہن میں بات بیٹھ چکی تھی اوراُس کی تقویت ہی ہوتی چلی گئی کہ ماہ صفر ٢٣٣ھ میں