ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
ثر صاف دل پر پڑتا ہے تو سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا کہ اَنَّہُ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ میرے دل پر غین جیسے آتا ہے دُھن جیسی آجاتی ہے تو میں پھر سو دفعہ استغفار کرتا ہوں اوراستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کا اعتراف کرے کہ میں نے گناہ کیے ہیں ،اگر کوئی کہے کہ میں نے کیے ہی نہیں گناہ ،تو غلط کہتا ہے ۔ کوئی گناہوں سے بچا ہوا نہیں : کوئی گناہوں سے بچا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ علامت ہے اس بات کی کہ اس کی آنکھیں کمزور ہیں، اُسے نظر ہی نہیں آ رہا بالکل ،حالانکہ گناہ تو لازماً ہوتا ہے ۔ لہٰذا وہ نظر ڈالے اورغور کرے ۔ استغفار کا طریقہ : تو پھر انسان کو چاہیے کہ آئندہ نہ کرنے کا ارادہ کرے ، پہلے تو گناہ کوگناہ کا کام سمجھے پھر اُس سے معافی چاہے، آئندہ نہ کرنے کا ارادہ کرکے ،تویہ استغفار ہوا۔ اوراستغفار کے کلمات کا ادا کرتے رہنا بے خیالی میں کہ آدمی کو خیال بھی نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں بس تسبیح پڑھے جارہا ہے اَسْتَغْفِرُاللّٰہ ، اَسْتَغْفِرُاللّٰہ اتنا جملہ فرض کریں پڑھے جا رہا ہے تو پھر یہ ہے کہ اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہوگا۔ فائدہ یہ ہوگا جیسے کہ زبان اس کی ذکر ہی میں لگی ہوئی ہے ، اللہ کا نام لینے میں لگی ہوئی ہے لیکن جو حقیقی فائدہ ہے وہ نہیں ہوگا اوراس میں یہ بھی شرط نہیںہے کہ انسان زبان سے کہے ۔ استغفار کا تعلق دل سے ہے : بلکہ اصل میں تو استغفار ہے ہی دل کاکام ،زبان کا نہیں ہے۔زبان سے تو اُس کی تائید کی جاتی ہے اُس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ حقیقتاً جو توبہ ہے یا استغفار ہے اُس کاتعلق قلب سے ہے ۔اور اپنے گناہ انسان کو پیشِ نظر رکھنا چاہیں اورخدا سے استغفار کرتے رہنا چاہیے اوراستغفار سنت عمل ہے ۔جناب رسول اللہ ۖ نے کرکے دکھلایا ہے اور استغفار اگر بے خیالی میں بھی ہو تو وہ فائدہ تو نہیں ہوگا جو گناہوں سے توبہ کا ہوتا ہے، اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ زبان خدا کے ذکر میں لگی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا اوررحمتوں سے نوازے اورہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ آمین۔ اختتامی دُعائ..........