ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
حضرت ابوالفضل شیخ علائو الدین اودِھی رحمة اللہ علیہ : آپ کی بیعت وارادت حضرت خواجہ سیّد محمد گیسو دراز رحمة اللہ علیہ سے تھی ، حضرت خواجہ صاحب کے حلقۂ ارادت میں علائو الدین نام کے دو شخص تھے، ایک مولانا علائو الدین گوالیری، دوسرے شیخ علائو الدین اودھی۔ ''تاریخ حبیبی وتذکرۂ مرشدی '' کے مؤلف مولانا عبدالعزیز واعظی نے اپنی تالیف میں علائو الدین اودھی کا دوجگہ تذکرہ کیا ہے ۔حضرت گیسو دراز کی وفات (٨٢٥ھ) کے بعد حضرت مخدوم زادہ خرد سیّد محمد اصغر حسینی کے زمانۂ شیو خت (٨٢٥ھ تا ٨٢٨ھ) میں ایک بار حلقۂ تلقین ذکر ہوا، جس میں قاضی برہان الدین (برینڈہ کے نائب حاکم شرع ) مولانا اسماعیل جو میاں عبداللہ (بن شاہ ابوالمعالی وخلیفہ خواجہ گیسو دراز) کے خلیفہ ہو چکے تھے۔تیسرے شخص حاکم شرع قصبہ نیوسہ تھے۔ چوتھے مولانا علائوالدین جو ہندوستانی تھے اور بعد میں حج بھی کر آئے تھے، موجود تھے (تاریخ حبیبی ص ١١٥) مولانا عبدالعزیز واعظی نے ایک دوسرے مقام پر شیخ علائو الدین اودھی کا ذکر حضرت شاہ ید اللہ حسینی خلیفہ ونبیرہ حضرت سیّد محمد گیسو دراز کے خلفاء مجاز کی فہرست میں کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیخ علائو الدین اودھی نے کچھ تربیت حضرت گیسو دراز سے اوراس کے بعد حضرت مخدوم زادہ خرد سیّد محمد اصغر حسینی سے پائی ،پھر اِن کی وفات کے بعد ان کے فرزند ِعزیز سیّد شاہ یداللہ حُسینی کے حلقۂ تربیت میں آگئے اورمنصب ِخلافت سے نوازے گئے ۔ تاریخ حبیبی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں حضرت مخدوم زادہ خرد سے بھی اجازت تھی ۔ لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت خواجہ صاحب نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میرے بعد محمد اصغر جس کسی کو اجازت دیں اُسے میری طرف سے بھی مجاز سمجھا جائے (تاریخ حبیبی ص١٢٣)۔ سیّد السادات حضرت خواجہ سیّد محمدگیسو دراز : لطائف ِ قدوسی میں لکھا ہے : ''مولانا شیخ علائوالدین اودھی را اجازت از پیر خود سیّد السادات سیّد محمدگیسو دراز بود ''۔ (لطائف قدوسی قلمی ورق ٤٤) ''مولانا شیخ علائو الدین اودھی کو اپنے شیخ سید السادات سید محمد گیسو دراز سے اجازت حاصل تھی ''۔