ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
جاتی ہے، یہ تکلیفیں تو وہ ہیں جو معمولی سمجھی جاتی ہیں اِن کی تدبیریں عورتیں خود ہی کرلیتی ہیں ۔ اورکبھی ایسی بیماریاں بچوں کو ہوتی ہیں جو گھر والوں کی سمجھ میں نہیں آتیں اوربڑے بڑے قابل اورتجربہ کار حکیموں اور ڈاکٹروں کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔ اورذرا سے بالشت بھر کے آدمی کے لیے ہزاروں روپیہ خرچ کرنا پڑجاتا ہے اُس وقت تارے نظر آتے ہیں (دماغ چکرا جاتا ہے )،اوربے ساختہ آدمی کہہ اُٹھتا ہے کہ پہلی اولاد ہوئی تو ہمیں ماردیا ،بھلے مانس کا کیا قصور ہے ،تو ہی نے تو اِسے بُلایا ہے ۔ غرض کہیں ناک دُکھ رہی ہے کہیں آنکھ دُکھ رہی ہے ذرا ساجی اچھا ہوتا ہے تو اپنی جان میں بھی جان آجاتی ہے۔ اورجب اس کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو اپنی زندگی بھی تلخ ہو جاتی ہے، بین الرجاء والخوف (یعنی اُمید اور خوف کے درمیان کی زندگی کا لطف آتا ہے اوردرجات کی ترقی ہوتی ہے )۔خیر خدا خدا کرکے لڑکا بڑاہوا تو اب اُس کی شادی ہوئی ۔ پھر اُس کے اولاد ہوئی اورسارا دھندا از سرنو شروع ہوا ۔ جن تکلیفوں سے خدا خدا کرکے کچھ نجات پائی تھی اب پھر اُن کا آغاز ہوا، اگر اس کے اولاد نہ ہوئی تو اس کا غم کہ اولاد کیوں نہ ہوئی اوراگر ہوئی تو وہ بھی سب سازوسامان لائی یعنی وہی گُوہ مُوت ،وہی بیماری ،وہی خرچ ،وہی بے چینی ، وہی ہر وقت کا شغل ۔غرض سارے غم تازہ ہوگئے یہ عیش وآرام ہے دُنیا کا ،اوردنیا کے یہ اشغال ایسے ہیں کہ جن سے کوئی بھی خالی نہیں ،حتی کہ لوگوں کی طبیعتیں ان سے ایسی مانوس ہو گئی ہیںکہ اگر یہ نہ ہوں تو طبیعت گھبراتی ہے کہ کوئی شغل نہیں (التبلیغ ج٢٤ ص٤٠ ) اولاد کی وجہ سے ہزاروں فکریں اور جھمیلے : اولاد کے ساتھ ہزاروں فکریں لگی ہوئی ہیں، آج کسی کے کان میں درد ہے ،کسی کے پیٹ میں درد ہے، کوئی گر پڑا ہے، کوئی گم ہو گیا ہے اورماں باپ پریشان ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ خدانے اِس کو اسی لیے اولاد نہ دی ہو کہ وہ اِس کو آزاد رکھنا چاہتے ہوں۔ میرے بھائی ایک کہانی سناتے تھے کہ ایک شخص نے صاحب عیال (بال بچہ والے )سے پوچھا کہ تمہارے گھر خیریت ہے؟ تو بڑا خفا ہوا کہ میاں خیریت تمہارے یہاں ہوگی مجھے بددُعا دیتے ہو؟ ہمارے یہاں خیریت کہاں ۔ ماشاء اللہ بیٹے بیٹیاں ہیں ،پھر اُن کی اولاد ہے، سارا گھر بچوں سے بھرا ہوا ہے ۔ آج کسی کے کان میں درد ہے، کسی کو دست آرہے ہیں ، کسی کی آنکھ دُکھ رہی ہے، کوئی کھیل کود میں چوٹ کھا کر رورہا ہے، ایسے شخص