ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
صفات ِاکرامیہ یعنی وجودیہ سات ہیں : حیات ، ارادہ ،علم ،قدرت ،سمع ،بصر اور کلام ۔اس سے یہ بات آپ کے سامنے آگئی کہ کلام اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے ۔ جب اس نے اس صفت سے اپنے بندوں کو نوازا تو انہیں زبان دے دی اورگفتگو سکھا دی۔ گفتگو بغیر عقل اور علم کے نہیں ہو سکتی تھی تو وہ بھی بخشا ،اورگفتگو دوقسم کی بخشی۔ ایک وہ کہ جو اپنے دل ہی دل میں انسان کرتا ہے اور دوسری وہ جو زبان سے الفاظ کے پیرائے میں ادا کرتا ہے، جو گفتگو دل ہی دل میں کرتا ہے وہ کلامِ نفسی کے مشابہہ ہے اور بغیر آواز کے ہی اُس کامفید وجود ذہن میں سچ مچ ہوتا ہے۔ اس میں بات ہوتی ہے کلام ہوتا ہے حتی کہ بعض دفعہ دل ہی دل میں آواز تک کا انسان فرق کرتا ہے کہ یہ بات میں زور سے کہوں گا یہ آہستہ اور یہ کان میں ، لیکن دل کے اندر اِس ساری گفتگو میں کہیں زبان نہیں استعمال ہوتی، گفتگو ہوتی ہے اوربلا ز بان ہوتی ہے،آواز ہوتی ہے اوربلا آواز ہوتی ہے ،چاہے آپ اِسے دل ہی دل میں باتیں کرنا کہہ دیں، چاہے خیال کہہ دیں، چاہے تفکر اورسوچنا کہہ دیں،چاہے منصوبہ کہہ دیں ،مگراِس کا وجود ایسا ہے کہ ہر شخص جانتا ہے اور اِس سارے عمل میں نہ زبان ہوتی ہے نہ آواز، اسی طرح حق تعالیٰ کا کلام ہے وہ زبان اور آواز سے بے نیاز ہے وہ قادرِ مطلق ہے ،وہ اپنے ارادہ و قدرت سے کلام فرشتہ پر ظاہر فرماتا اور وہ نبی کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم تک لے آتا( علیہ السلام)۔ اس بات کے سمجھنے کے لیے آلات ِجدیدہ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے مگر بحث طویل ہوجائے گی۔ اگر انسان غور کرے تو گویا اُس پر حق تعالیٰ نے صفت ِکلام کی ایک بارش ہی برسا دی ہے۔ پھر اس صفت ِکلام سے نفع اُٹھانے کی وہ راہیں کھول دیں جواُس کے قرب ورضا کے حصول کا ذریعہ بنیں اور اُسے ان ہی محدود حروف میں اپنا کلام عطا فرمایا جسے ہم'' قرآن کریم'' کہتے ہیں تاکہ یہ اِسے کانوں سے سنے پھر دل دل میں دہرا کر اور زبان سے ادا کرکے قرب وثواب حاصل کرے۔ اورکانوں سے سننے پر ،دل میں یاد کرنے پر، دماغ میں محفوظ رکھنے پر ،زبان سے پڑھنے پر، غرض ہر عمل میں جدا جدا ثواب رکھ دیا۔ سننا جدا عمل ہے سمجھنا اورہے ،دل ودماغ میں دہرانا اور ہے، زبان سے پڑھنا اور ہے، اسلیے سب کا ثواب الگ الگ ہے ،بالکل اسی طرح جیسے ہر نیکی میں دس طرح کا مشینی عمل ہوتا ہے توایک نیکی دس نیکیوں کے برابررکھ دی گئی ہے، اسی طرح قرآن کریم کے ایک حرف کی ادائیگی کو بھی ایسی نیکی قرار دیا گیا ہے جودس مرحلوں سے گزر کر وجود میں آئی ہو اوراُسے دس نیکیوں کے برابر فرمایا گیا