ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
حافظ صاحب اور کسی آدمی میں یہ دونوں وصف جمع ہو جائیں تو اُسے اُس کا نام ڈاکٹر حافظ ملاکر لیا جانے لگے ۔ نام کے ساتھ اُس کے یہ دونوں نمایاں اوصاف ذکر کیے جانے لگیں۔ اسی طرح اللہ تو ذاتِ پاک کا نام ہے اور باقی اس کے اوصاف ہیں ۔اورحق تعالیٰ کی ہر صفت اپنے موقع و محل کے اعتبار سے اپنی جگہ دوسری صفت سے الگ ہے چاہے یہ شبہ ہوتا ہو کہ یہ بظاہر ایک ہی ہیں مثلاً رَحْمٰنْ رَحِیْمْ رَئُ وْفْ وَدُوْدْ اللہ پاک کے اسماء صفات ہیں جن کے قریب قریب ایک جیسے معنی نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ہرصفت دوسرے سے جدا ہے جیسے تربوز کا میٹھا ہونا خربوزہ سے آم سے انگور سے کھجور سے اور شہد وغیرہ سے مختلف ہے بلکہ اِن کی تاثیرات تک میں فرق ہے کہ جسمِ انسانی پر جدا جدا اثر مرتب ہوتا ہے حتی کہ شہد کو ڈاکٹر ذیابیطس میں اکثر حالات میں مضر نہیں کہتے حالانکہ وہ تیز میٹھا ہوتا ہے۔ اگر فقط مٹھاس پر نظر رکھی جائے تو بظاہر یہ خیال ہوتا ہے کہ میٹھا ہونے میں اشتراک ہے ،اس لیے یہ سب ایک ہی چیز ہوں گے لیکن ایسے کہنے والے کو بے عقل کہا جائے گا ۔ اگر کسی کو تربوز کی قاش کھلا کر دریافت کیا جائے اوروہ کہے کہ یہ خربوزہ کی قاش تھی تو آپ یہ کہیں گے کہ نہیں یہ خربوزہ کی قاش نہیں تھی بلکہ تربوز کی قاش تھی ۔ آپ نے ایک کے بارے میں نفی تک کردی حالانکہ وہ میٹھا ہونے میں ایک ہیں۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ آگے بڑھ کر آپ تقسیم کرتے ہیں کہ ایک نوع کی چیزمیں بھی نفی اوراثبات لاتے ہیں کہ یہ آم سہارنی ہے رٹول نہیں ، رٹول ہے ثمربہشت نہیں ،طوطاپری ہے لنگڑا نہیں اوراِن کی قیمتوں کے فرق کو تسلیم کرتے ہیں، وغیرہ ۔ اسی طرح باری تعالیٰ کے اسماء صفات سے جو صفات مفہوم ہوتی ہیں اُن میں بھی فرق ہے اور وہ باعتبار مُتَعَلَّقْ کے جدا جدا ہیں ،ایک دوسری سے مختلف ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے تابع ہو کر ہی تمام مخلوقات میں اُن کا ظہور ہورہا ہے اور یہ عجیب الصفات گلدستہ چمن بہار وجود میں آیا ہوا ہے، غرض ہرصفت اپنے اثر وتاثیر کے لحاظ سے جدا ہے حتی کہ '' رحمن'' اور''رحیم ''بھی جس کی تفصیل علماء کرام نے بیان فرمائی ہے ۔ اب یہ سمجھئے کہ حق تعالیٰ کی کچھ صفات وجودیہ کہلاتی ہیں اِن ہی کو'' صفاتِ اکرام'' کہا جاتا ہے ۔اور کچھ صفات'' جلالیہ'' اور''تنزیہیہ'' کہلاتی ہیں ،وہ وہ صفات ہیں جن میں حق تعالیٰ کی پاکی ، برتری اورعظمت وغیرہ کا ذکر ہو ۔ قرآن پاک کی آیت ہے تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ اور اسی آیت مبارکہ سے یہ نام لیے گئے ہیں ۔