ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2005 |
اكستان |
|
اب یہ سمجھئے کہ جب ہم تلاوت کرتے ہیں تو جو ہماری زبان سے نکلتا ہے اُسے کلام اللہ کہتے ہیں ۔ بالکل ایسے ہی کہ جیسے آپ روزمرہ کی زندگی میں کسی کی بات نقل کرتے ہیںتو یہ کہتے ہیں کہ ''بقول اُس کے ''اور ''یہ اس کا مقولہ ہے ''حتی کہ جھگڑتے وقت کہتے ہیں کہ اُس کے الفاظ یہ نہ تھے یہ تھے ،اوراُس نے یہ لفظ نہیں استعمال کیا تھا بلکہ یہ لفظ کہا تھا ، اور اشعار نقل کرتے ہیں توکہتے ہیں کہ یہ اقبال کا کلام ہے، یہ اکبر کا کلام ہے، یہ جگر کا کلام ہے، یہ حالی کا کلام ہے، یہ امیر مینائی کا کلام ہے ۔اورجب کلام اقبال سناتے ہوتے ہیں تو یہ جانتے اورتسلیم کرتے ہوتے ہیں کہ آواز اورزبان آپ کی ہے اور کلام اقبال کا ہے۔ ان مثالوں سے آپ بآسانی یہ سمجھ سکیں گے کہ قرآن پاک کلام تو باری تعالیٰ کا ہے اور اُس کا محل ِظہور آپ کی زبان و آواز ہے۔ محل ادراک آلات دماغیہ ہیں، اور مقرحفظ آپ کا مقررُوح یعنی قلب اور سینہ ہے ۔(نَزَّلَہ عَلیٰ قَلْبِکَ اور بَلْ ھُوَ اٰیَات بَیِّنَات فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوالْعِلْمَ۔)۔غرض تلاوت کے وقت اِن سب جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ظہور ہو رہا ہوتا ہے اور کلام اللہ تعالیٰ ہی کا ہوتا ہے۔حضرت مجدد الف ِثانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو کثرت ِتلاوت کی وجہ سے قرب ونسبت خداوندی حاصل ہوتی ہے وہ بہت مضبوط اوردائمی ہوتی ہے۔ اب یہ بھی سمجھ لیجئے کہ'' کلام اللہ'' اِس حقیقت کے تحت کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ، مخلوق نہیں ہے ۔ مخلوق وہ چیز ہوتی ہے جو ذات باری تعالیٰ سے جدا ہو۔ اللہ کی صفات اس سے جد انہیں ہیں وہ مخلوق نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے اس کے کلام کو مخلوق بالکل نہیں کہا جاسکتا،ہاں مخلوق جیسے انسان اس کا محل ظہور ہوسکتا ہے اورفرشتہ جیسے جبرئیل علیہ السلام واسرافیل علیہ السلام اس کو اپنے اندر ضبط کرکے ایک مقام سے نبی کریم علیہ السلام تک پہنچانے والے ہو سکتے ہیں اور الف باتا (یا ۔اے ۔ بی ۔سی )اس کے سمجھنے کے تحریری اشارے ہو سکتے ہیں اور اس کلام پر دلالت کرنے والے بن سکتے ہیںاور کوئی بھی مخلوق کلامِ الٰہی کے ظہور کی جگہ ہو سکتی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے درخت محل ظہور ِکلام اورمحل ِنزول وحی بنا دیا گیا تھا جنہوں نے قرآن پاک کو کلام الٰہی کے بجائے کلام رسول کہا ،اُن کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے : فَقَالَ اِنْ ھٰذَا اِلَّاسِحْر یُّؤْثَرُ o اِنْ ھٰذَا اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ o سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ ۔ (پ ٢٩ سُورۂ مدثر )