ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
ہے کہ رات کو بھیس بدل کر نکلے ہوئے ہیں، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی پریشانی میں گھر کے باہر بیٹھاہے آپ نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ بیوی کی ڈلیوری کا مسئلہ ہے گھر میں بیوی کے علاوہ اور کوئی نہیں کوئی سازوسامان نہیں ۔آپ فوراً گھر گئے اور اہلیہ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خدمت کا ایک موقع دیا ہے وہ سازوسامان لے کر ساتھ ہو لیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے طفیل ان کو فراغت دی ۔ یہ مزاج اس وقت کے ہر فرد میں موجود تھا یعنی اس وقت کے لوگ اپنے حکمرانوں کے طریقوں پر چلتے تھے جب وہ دیکھتے کہ ان کے حکمران لوگوں کی نفع رسانی کے لیے اور خدمت خلق میں پیش پیش ہیں تو ان میں بھی یہ جذبہ اُبھرتا تھا کہ میرے سے کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی فائدہ پہنچ جائے، راحت پہنچ جائے، نفع پہنچ جائے۔ حضرت سلمان فارسی کا بھی ایک قصہ مشہور ہے کہ جب آپ مدین کے گورنر تھے تو ملک شام سے ایک تاجر آتا ہے وہ سامان اُٹھانے کے لیے کسی قلی کی تلاش میں ہے، اتفاق سے حضرت سلمان فارسی کا وہاں سے گزر ہوتاہے کوئی ہٹو بچو کا شور نہیں کوئی پروٹوکول نہیں کوئی حفاظتی دستہ ساتھ نہیں کوئی لباسِ فاخرہ نہیں ،ایک عام انسان کی طرح جارہے ہیں کسی کو پتہ بھی نہیں کہ یہ ہمارے گورنر ہیں تو اس نے انہیں قلی سمجھ کر وہ سامان اُنھیں اٹھوادیا ،اچھا خاصہ سامان تھا کافی آگے جانے کے بعد کچھ لوگ ملے جو آپ کو پہچانتے تھے انھوں نے آ پ کو ادب سے سلام کیا اور اس آدمی سے کہا کہ ظالم توجانتا نہیں کہ یہ حضرت سلمان فارسی ہیں ہمارے گورنر ۔اب جناب وہ آدمی بہت شرمندہ ہوا لگا ہاتھ جوڑنے معافیاں مانگنے مگر حضر سلمان فارسی نے کہا کہ بھائی تم نے میرے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی میں نے تو خیر کی نیت سے تمہارا سامان اُٹھالیا اب تم مجھے اس خیر کے کام سے محروم تو نہ کرو منزل تک سامان پہنچا کر آئے تو یہ جذبہ تھا خیر کا اُن حکمرانوں میں۔ صحابہ کے بعد تابعین میں بھی یہی جذبہ تھا اور تبع تابعین میں بھی یہی جذبہ۔ یہی جذبہ بعد میں ساری اُمّت میں آنا چاہیے تھا تو وہ لوگ جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو راسخ کردیا تھا اُن کا جذبہ تو یہی تھا، بڑے بڑے اولیاء کرام کو دیکھئے ان کے دل اُمّت کے غم میں گُھلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کو دیکھئے خادم کھانا پیش کرتاہے تو فرماتے ہیں کہ کیسے کھائو ں جبکہ بستی کے یتیموں اور مسکینوں کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ۔ایک دفعہ بستی میںآگ لگ گئی تو اس آگ سے جتنا نقصان ہُوا اُس سے زیادہ بستی کے لوگوں کو دیا تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمایا کہ تم بہترین اُمت ہو جن کو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، تو ہمیں بھی دُعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ہی بنا دے مگر ہماری حالت تو بالکل اُلٹ ہے ہم تو بچتے ہیں کہ کوئی ہم کو کوئی کام نہ کہہ دے ۔ہم سے تو لوگوں کی نفع رسانی نہیں ہوتی ہاں ہم تو لوگوں کو اذیت دینے میں سب سے آگے ہوتے ہیں ۔محلے دار ہم سے پریشان ، دُکاندار ہم سے تنگ ،ملنے جُلنے والے ہم سے نالاں ،رشتے دار ہم سے