ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
علیہ السلام کی بے تعدادزوجات تھیں (یعنی بیویاں تھیں ۔استثناء ١٥۔١٠/٢١ ۔حضرت دائود علیہ السلام کی اُنیس بیویاں تھیں، شمویل ٢٣/١٦۔حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک ہزار عورتیں تھیں ،سلاطین٣/١١ یہ سب بائیبل کے مستند پانچ انبیاء علیہم السلام کی متعدد زوجات کے حوالے ہیں ،اگر اِن پر مستشرقین کو اعتراض نہیں ہے تو تعددِ نکاح نبوی پر کس منہ سے اعتراض کرتے ہیں۔ یہ تو قانون تعدد ِنکاح کی دلیل عیسائیوں کی بائیبل سے دی گئی اب عقلی دلیل تعدد ِنکاح کی معلوم کرو اور سُن لو۔ عقلی دلائل : دلیل نمبر١ : اگر یورپ کے قانون کے مطابق ایک مرد کے لیے صرف ایک بیوی کے ساتھ نکاح مختص ہو تو پھر قُدرت اورفطرت کے لیے یہ ضروری تھا کہ ولادت میں ذکور و اناث میں مساوات رکھی جاتی یعنی لڑکے اور لڑکیاں کل عالم میں اور ہر جگہ مساوی تعداد میں پیدا ہوتے، تاکہ لڑکیوں کی تعداد بڑھنے نہ پائے ۔اگر لڑکیوںکی تعداد پیدائش لڑکوں سے ایک فی ہزار بھی زائد ہوجاتی تو تین ارب انسانی آبادی میں ایک لاکھ لڑکوں کی پیدائش کے مقابلے میں ایک لاکھ ایک سو اور ایک کروڑ لڑکوں کے مقابلے میں دس ہزار لڑکیاں زائد ہوں گی ۔اور ایک ارب کے مقابلے میں دس لاکھ عورتیں فالتو ہوں گی ،علیٰ ہذاالقیاس ۔اب سوال ہوگا کہ یہ فالتو عورتیں جنسی فطری خواہش کی تکمیل کے لیے یا خلافِ فطرت تجرد پر مجبور کی جائیں گی جو ہر دور میں اور بالخصوص اِس دور میں ناممکن ہے ، یا زنا کے ذریعے ناجائز طریقے سے اپنی خواہش پوری کریں گی، جو انسانی معاشرے کی تباہی کا موجب ہوگی، لہٰذا قانون تعددِ نکاح کی صورت میں جوبشرطِ عدل اسلام میں موجود ہے اِن کی فطری ضرورت کی تکمیل کی قانونی صورت پیدا ہوگی ،بالخصوص آج کل جو عموماً عورتوں کی تعداد مردوں سے بہت زیادہ ہے،اُن کی کھپت کے لیے اسلام کے فطری قانون تعددِ نکاح کے سوا اور جائز راہ نہیں۔ دلیل نمبر٢ : تعداداموات میں بھی مرداور عورتوں کی مساوات قدرت کے لیے ضروری تھی ،موت کی صورت میں اگر یک زوجگی کا یورپی قانون ، قانون فطری اور قدرتی ہوتا تو قدرت کا فرض تھا کہ مردوں اور عورتوں کی قبض رُوح اور موت میں یکسانیت رکھتی تاکہ توازن پورا ہو، ورنہ اگر مرد زیادہ مَر جائیں اور عورتیں کم، تو اگر دونوں کی ولادتی تعداد برابر بھی ہو، جب بھی بڑی تعداد عورتوں کی بچ رہے گی ، جن کے کھپانے کے لیے یورپی قانون میں جائز صورت کوئی نہ ہوگی۔ بہر حال یورپی قانونِ یک زوجگی کے تحت کارخانۂ قدرت کافرض تھا کہ وہ شرح پیدائش واموات کی وفاتر بذریعہ ملائکہ پورے پورے ملک اور صوبوں اور ضلعوں تک میں قائم کرتی تاکہ یورپی قانون یک زوجگی کا توازن برقرار رہے لیکن ایسا نہیں ہوا ، جس سے معلوم ہوا کہ یہ انسانی قانون منشاء قدرت وفطرت کی ضد ہے اور واجب الترک ہے۔