ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
ثباتِ مقصد کے لیے کافی تھا اور اپنی طرف سے الزام تراشنے کی ضرورت نہ تھی۔اس سلسلے میں بدترین دشمن ابوسفیان اور اس کے قریشی ساتھیوں کا مجمع عام میں وہ بیان جس سے آ پ کی عزت مآبی اور امانت داری کا واضح ثبوت ملتا ہے ،شہادت کے لیے کافی ہے۔ واقعات ِ تاریخ : خود حضور علیہ السلام کی زندگی خواہشاتِ نفس کی ضد ہے، ہوس اور خواہش ِنفس ناقابلِ تقسیم جذبہ ہے ۔نفس کو مال کی خواہش ہوتی ہے ،عمدہ لباس کی خواہش ہوتی ہے ،عمدہ مکان کی ، عمدہ خوراک کی، مجالس میں عمدہ نشست کی بھی ، دشمنوں سے انتقام کی بھی اور بیویوں کی بھی خواہش ہوتی ہے ،عمدہ سواروں ،راحت وآرام اور مقامِ عزت کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ ان چیزوں پر اگر منصفانہ نگاہ ڈالی جائے تو عین اس وقت کہ آپ کو عرب کی دس لاکھ مربع میل کی سلطنت پراقتدار حاصل تھا،کسی وقت بھی آپ کے پاس مال نہیں تھا۔ یہاں تک کہ وفات کے وقت بھی آپ نے ایک درہم نہیں چھوڑا، ایک بار نماز سے فارغ ہوکر جلدی سے گھر میں تشریف لے گئے ،صحابہ حیران تھے کہ کیا بات ہے ؟ واپس آکر آپ نے بتایا کہ گھر میں کچھ مال تھا اُس کو تقسیم کرنے کا حکم فرما آئے ہیں کیونکہ خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ موت آئے اور گھر میں مال موجود ہو۔ آپ کا لبا س غریب عوام کی طرح تھا، اگر کسی وقت کوئی اچھی چادر یا کپڑا کسی نے پیش کیا اور کسی کو پسند آیا یا مانگا تو فوراً اُتار کر دے دیا۔ مکان کیا تھا مٹی کی چھوٹی چھوٹی دیواروں پر کھجور کی شاخیں ڈال کر اُس کے نیچے عمر بھر سوتے رہے، گھر میں چراغ تک نہ تھا ، بارش میں چھپر کے اُوپر ٹاٹ ڈالا جاتا تھا ۔ مجالس میں آپ کی مخصوص نشست نہ تھی ،عام آدمی جب باہر سے آتا تو پیغمبر اور اُن کے جانثاروں میں فرق نہیں کر سکتا تھا ۔خوراک کا یہ عالم تھا کہ گھر کی واقفِ حال بیوی حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ تین تین ماہ تک اس شاہ ِدوجہاں کے گھر میں آگ نہیں سلگتی تھی ، پانی اور چند دانے خرما پر گزارہ تھا ، بعض اوقات بھوک سے بے تاب ہوکر پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے کہ بھوک کااحساس نہ ہو ۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور کے پورے کنبے کو دودن مسلسل کبھی پیٹ بھر کر جو کی روٹی میسر نہیں آئی یہاں تک کہ حضور وصال فرماگئے۔ دشمنوں سے انتقام کا یہ حال تھا کہ اہلِ مکہ جیسے بدترین دشمنوں کے تیرہ سال کے مظالم سے تنگ آکر آپ نے مکہ جیسے مقدس وطن کو چھوڑا تھا ،فتح مکہ کے موقع پر وہ پابہ زنجیر قیدیوں کی صورت میں جب آپ کے سامنے پیش کیے گئے تو آپ نے فرمایا: تم سب آزاد ہو، اور میں تم کو ملامت تک بھی نہیں کرتا ۔ کیا اس سے بڑھ کر نفس کشی اور خواہش کو پامال کرنے کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں مل سکتی ہے۔ سواری کا یہ حال تھا کہ جب اُونٹ کم ہوتے تھے اور دو دوتین تین باری باری سے ایک اُونٹ پر سوار ہوتے تھے تو آپ بھی خود اِس میں شامل ہوتے تھے ، جب آپ کی نوبت میں رفیق سواری عرض کرتا (باقی صفحہ ٥٣)