ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
تعددِ زوجات میں پیغمبرعلیہ السلام کی نیت پر اعتراض اور اُس کا جواب : مستشرقین سے مراد وہ یورپی مفکرین ہیں جو علومِ مشرقیہ بالخصوص علوم اسلامیہ کا مطالعہ اس خیال سے کرتے ہیں کہ اپنی تصنیفات کو بنام تحقیق علمی شائع کریں ۔ایک بات تعصب پر پردہ ڈالنے کی غرض سے قرآن ،صاحبِ قرآن اور اسلام کی تعریف میں بھی لکھ دی جاتی ہے اور بہت سے اسلامی کتابوں کے حوالے بھی درج کردئیے جاتے ہیں تاکہ مضمون مسلمان ناظرین کی نگاہ میں مقبول ہو جائے لیکن ساتھ ساتھ ایسی باتیں اور زہر شامل کر دئیے جاتے ہیں کہ مسلمان اگر عیسائی نہ ہو تو کم از کم مسلمان بھی نہ رہے ،یعنی قرآن اور صاحبِ قرآن علیہ السلام اور اسلام کے متعلق ان میں تشکک اور تردّد پیدا ہو اور عقیدے کی پختگی زائل ہو۔ یہ شعبہ اسلام کے خلاف مسیحی یورپ کا قلمی جہاد ہے کیونکہ تلوار کے جہاد سے وہ کامیابی نہیںہوسکتی جو اس قلمی جہاد سے ہو سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود مسلمان برائے نام اسلام کا نام برقرار رکھ کر اسلام کو مٹا دینے کے درپئے ہوجاتے ہیں ۔یہی نسخۂ اکسیر ہے جو مشرقی پاکستان کے ہندواستادوں اور پروفیسروں نے وہاں سکولوں اور کالجوں میں استعمال کیا اور اظہار ِ ہمدردی کے لیے یہ مرچ مصالحہ بھی شامل کیا کہ مغربی پاکستان والے بنگالیوں کو لوٹ رہے ہیں ۔بنگالیت کے جذبے کو اُبھارا اور اسلامیت سے نفرت دلائی یا بدظن کیا گیا ،نتیجہ وہی ہوا جو ہمارے سامنے ہے لیکن مغربی پاکستان میں نصابِ تعلیم اور اساتذہ تعلیم پراب تک تجربے کے بعد بھی ہماری احتسابی نظر صحیح نہیں ہوئی ۔ہم ان ہی لایعنی جھگڑوں کے شکار ہیں۔ مستشرقین کی یہ ساری دُشمنی اسلام سے ہے نہ دیگر مذا ہبِ مشرق سے۔ یہی حال رُوسی سوشلزم کا ہے کہ اس کا نشانۂ تیر بھی صرف اسلام ہے، نہ ہندو مذہب ، نہ بدھ ، نہ مجوسیت ،نہ مسیحیت۔اس کی چند وجوہ ہیں : (١) اسلام کو وہ جاندار مذاہب سمجھتے ہیں کہ اگر کسی وقت وہ زندہ ہوا تو بہت بڑی طاقت بن جائے گا جس کا مقابلہ مشکل ہے ۔ (٢) اس میں عالمی مسائل کو حل کرنے کی قوت وکشش موجود ہے ،دیگر مذاہب میں نہیں ۔وہ مذاہب مردہ ہیں اس لیے اسلام کے شیر کو ماراتو نہیں جا سکتا سُلاد ینا ضروری ہے ۔ (٣) صلیبی جنگوں سے مسیحی اقوام کو اسلام دُشمنی ورثہ میں ملی ہے ،جو اِن سے جدا نہیں ہو سکتی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود بعض مستشرقین حضور علیہ السلام کے متعلق بعض غلط بیانیوں کے انکار اور اصل حقیقت کے اقرار کرنے پر مجبورہیں مثلاً یہ کہ حضور علیہ السلام نے جو متعدد شادیاں کیں ، نفسانی جذبے کی وجہ سے کیں یا دیگر مصالح کی وجہ سے ۔ہم چند مورخین یورپ کے حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں جنھوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ یہ نکاح نفسانیت کی غرض سے نہیں ہوئے :