ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
حرف ٓغاز نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد ! گزشتہ ماہ کی بارہ تاریخ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی وزیرِ تعلیم زبیدہ جلال نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ''قرآنی آیات کی نصابِ تعلیم میں ضرورت نہیں ہے '' جبکہ پارلیمانی سیکرٹری دیوا ن جعفر کا کہنا ہے کہ'' آیات کا بیالوجی (حیاتیات) سے کیا تعلق ہے، کچھ پرانی آیات نکال کر نئی شامل کی جاتی ہیں ،دوایک اُوپر نیچے ہو جائیں تو فرق نہیں پڑتا''۔وفاقی وزیرِ تعلیم اور پارلیمانی سیکرٹری کے اِن ریمارکس پر مجلس عمل واک آئوٹ کرگئی۔ پاکستان چونکہ ایک مسلم ملک ہے اس لیے ہر مسلمان کا قدرتی طورپر قرآن پاک سے براہِ راست تعلق ہے اور وہ اس پر مکمل ایمان رکھتا ہے اس کی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے اسی طرح مسلم حکومت پر بھی فرض ہے کہ اسلامی تعلیمات ہر مسلمان مرد عورت تک پہنچانے کا انتظام کرے، ایسا نہ کرنا یا اس کے برخلاف کرنا گناہِ عظیم ہے اس کی کسی بھی آیت کا انکار یا توہین کرنا کفر ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم اور پارلیمانی سیکرٹری کا لب ولہجہ قرآنی آداب سے عاری ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر گفتگو کرنے کا سلیقہ ان کو آتا ہی نہیں ہے ۔پارلیمانی سیکرٹری نے اپنی گفتگو میں کچھ آیات کو پرانی اور کچھ کو نئی قراردیاہے حالانکہ قرآن پاک کی کوئی آیت پرانی ہے نہ نئی ہے یہ اللہ کا کلام اور زندہ معجزہ ہے اس کے عجائبات میں ہر آن اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے قرآن سے تعلق رکھنے والے اس حقیقت کوخوب سمجھتے ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ نصاب مرتب کرنے والے بورڈ میں صرف ایسے ہی لوگ نہ ہونے چاہئیں کہ جن پر انگریزی