ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
لیوم ٢ اذھبوفا نتم الطلقاء تم سب کے سب آزاد ہو۔ یہ آقائے نامدار ۖ کی تعلیمات ہوئیں تو ان کی روشنی میں چلنے اور ان پر عمل کرنے کی صورت میں انسان کسی زیادتی کا عادی نہیں ہوتابلکہ انصاف کا عادی ہوتا ہے۔ قربانیاں دینے والوں کے جذبات کا خیال : ایک واقعہ یہاں اِس قسم کا آرہا ہے کہ ابو سفیان جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے وہ کہیں ایسی جگہ آئے جہاں حضرت سلمان بیٹھے تھے ،حضرت صہیب بیٹھے تھے، حضرت بلال بیٹھے تھے رضی اللہ عنہم کچھ اور حضرات بھی تھے فقالوا تو اِن لوگوں نے ایک جملہ یہ کہا ما اُخذتْ سیوفُ اللّٰہ من عُنقِ عد وِاللّٰہِ مأخذھا اللہ کی تلواریں ابھی خدا کے دشمن کی جس جگہ پہنچنی چاہیے تھیں اُس جگہ نہیں پہنچیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دُشمنوں کی گردنیں ابھی بچی ہوئی ہیں ابھی تلواروں نے جہاں پہنچنا تھا وہاں ابھی تک وہ نہیں پہنچیں یہ جملہ کہا ۔تو معلوم یہ ہوتا ہے اُس وقت صلح حدیبیہ تو ہو چکی تھی اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ مسلمان ابھی نہیں ہوئے تھے یعنی فتح مکہ سے دوسال پہلے ،صلح حدیبیہ کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے ان کے اسلام سے پہلے ۔ نبی علیہ السلام کی تربیت کا اثر : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ان لوگوں سے اَتقولون ہذا لشیخِ قریشٍ وسیدہ تم یہ بات یہ جملہ اُس شخص کے بارے میں کہہ رہے ہو کہ جو قریش کا سردار ہے اور اُن کا شیخ ہے ۔فاتی النبیَ ۖ ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر رسول اللہ ۖ کی خدمت میں پہنچے اور جا کر وہاں یہ بات کی کہ ایسے ایسے ہو رہا تھا انھوں یہ جملہ کہامیں نے اُن کو اِس جملہ پر ٹوک دیا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا یا ابابکر لعلک اغضبتھم کہیں ایسا تو نہیں کہ تم نے ان لوگوں کو خفا کردیا ہو یہ صہیب ، بلال، سلمان رضی اللہ عنہم یہ ناراض تو نہیں ہوگئے تمہارے اس کہنے سے، پھر بہت سخت جملہ فرمایا لان کنت اغضبتہم لقد کنت اغضبت ربک اگر تم نے انھیں خفا کردیا ہے تو پھر اللہ کو خفا کردیا ہے۔ تو یہ لوگ انقلاب لانے والے ہیں تکلیفیں اُٹھانے والے ہیں مگر انھیں جناب رسول اللہ ۖ نے پہلا درجہ دیا ہے۔ اسی طرح حضرت عمر کے دور میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے اجازت چاہ رہے تھے اور لوگ باری باری جا رہے ہوں گے اپنے کام سے، یہ بھی ملنا چاہتے تھے اِنھیں روک دیا تھا کہ ٹھہروبیٹھو ،یہ بیٹھے رہے ۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ آئے اور اُن کے ساتھ اسی طرح کے حضرات تھے انھوں نے کہا کہ بھئی ہمیں اجازت لے دوتو خادم ''یرفع '' نام تھا یا اور کوئی ہوگا۔اُس نے کہا کہ وہ آئے ہیں اجازت چاہتے ہیں انھوں نے فرمایا بُلالو ، تو اِ نھیں فوراً بلالیا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو یہ بہت محسوس ہوا مگر اسلام لا چکے ٢ یہاں صرف اس عمل پر قرآنِ پاک سے استشہاد مقصد ہے اگرچہ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصّہ میں نازل ہوئی ہے۔مرتب۔