ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
قطبِ عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کا فتوٰی : ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن میں جناب رسول اللہ ۖ کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی تو یہودیوں نے خوشی کی تھی ۔وہ اب جاہل ہندیوں میں رائج ہوگئی ۔نعوذ باللّٰہ من شُرورِ اَنفسنا ومن سیّئات اعمالنا''۔ (فتاوٰی رشیدیہ ص ١٥ مطبوعہ کراچی) بریلوی مکتبۂ فکر کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان کا فتوٰی : ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں نہ اِس دن صحت یابی حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وفات ہوئی اُس کی ابتداء اِسی دن سے بتائی جاتی ہے''۔ (احکام شریعت ص ١٨٣ج٣) بریلوی مکتبۂ فکر کے ایک دوسرے عالم دین مولانا امجد علی تحریر فرماتے ہیں : ''ماہ صفرکا آخری چہار شنبہ ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے ۔لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں سیروتفریح اور شکار کو جاتے ہیں ، پوریاں پکتی ہیں اور نہاتے دھوتے ہیں ،خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور ۖ نے اِس روز غسل ِصحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ اِن دنوں میں حضوراکرم ۖ کا مرض شدت کے ساتھ تھا، لوگوں کو جو باتیں بتائی ہوئی ہیں سب خلافِ واقع ہیں''۔(بہارِ شریعت ص ٢٤٢ج١٦) قطع نظراِن تمام باتوں کے اِس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ۖ کل تیرہ دن بیماررہے ہیں اوراِس پر سب متفق ہیں کہ آپ ۖ نے سوموار کو وصال فرمایا ہے اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو آپ ۖ کے مرضِ وفات کے آغا ز کادن بدھ ہی بنتا ہے اِسی طرح کہ بدھ سے دوسری بدھ تک ٨یوم اور جمعرات سے سوموار تک ٥یوم(١٣٥٨) لہٰذا مرض ِوفات کا آغاز بدھ ہی سے ہوا۔ مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ماہ صفرکا آخری بدھ رسول اللہ ۖ کے مرض کا آغاز کا دن تھانہ کہ صحت یابی کا ۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ آخری چہار شنبہ یہودیوں اور ایرانی مجوسیوں کی رسم ہے جو ایران سے منتقل ہوکر ہندوستان میںآئی ہے اور یہاں کے بے دین بادشاہوں نے اِسے پروان چڑھایا ہے۔ (دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ص١٨۔١٩ ج ١) (باقی صفحہ ١١ )