ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
ہے''۔ (تاریخ دیوبند ص٢٩٠۔٢٩١ ۔تاریخ دارالعلوم ج١ ص ١٤٨ ) ریاضت : حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ بہت ریاضت کرتے تھے ۔صاحب تذکرہ نے لکھا ہے کہ آپ نے حضرت راج خان صاحب کے یہاں سے واپس آکر چلہ کشی فرمائی پھرایک سال بعد دوسری دفعہ چلہ کیا اس دفعہ چودھری صابر بخش کی مسجد میں چلہ کشی فرمائی ۔پھر آپ نے چھتہ کی مسجد میں ایک توجہ خانہ بنوایا اور اس میں حلقہ کرنا شروع کیا (تذکرہ ص٦٨ ملخصاً) مسجد چھتہ میں حضرت حاجی محمد عابد صاحب قدس سرہ کا قیام ساٹھ برس تک رہا، تیس سال تک آپ کی تکبیر اُولیٰ فوت نہیں ہوئی ۔نماز تہجد کا ایسا التزام تھا کہ ساٹھ سال تک قضاء کی نوبت نہیں آئی ۔ (تاریخ دارالعلوم ص٤٧٨) یہی مسجد حضرت حاجی محمد عابد صاحب کی عبادت گاہ تھی اور وہیں آپ کا خلوت خانہ تھا یہ کمرہ اب تک ہے۔جس زمانہ میں ١٥صفر٩٦ھ/ ١٦فروری ٧٦ء کومیںنے اس مضمون کا مسودہ لکھا تھا معلوم ہوا تھا کہ ان دنوں اس میں مولانا مفتی محمودصاحب گنگوہی قیام رکھتے تھے۔ تاریخ دیوبند میں ہے کہ : ''آج تک بھی بفضلہ تعالیٰ وہ انار کا درخت موجود ہے جس کے سایہ میں مدرسہ شروع ہوا ،اسی مسجد کے حجروں میں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (قدس اللہ اسرارہم)کا قیام بھی رہا ہے ۔اس کے شمالی حجروں کی جگہ ١٣٩٠ھ میں اب نئی عمارت بن گئی ہے''۔ (تاریخ دیوبند ص ٢٩١) تاریخ دارالعلوم میں آپ کے بارے میں تحریر ہے : ''حاجی صاحب دیوبند میں ایک ذی وجاہت صاحب اثر عابد زاہد ہستی تھے آپ کی بزرگی کا سکہ دیوبند کے ہر خورد وکلاں مردو عورت بچے اور بوڑھے کے دل پر تھا ۔ان کے روحانی فیض نے دیوبند اور اطراف وجوانب بلکہ دوسرے صوبوں کے لوگوں کے دلوں کو بھی مسخر کر رکھا تھا ۔عابد وزاہد ہونے کے ساتھ بہت بڑے عامل بھی تھے ۔آپ کے تعویذوں کا روحانی فیض بیماروں پر تریاق کا کام کرتا تھا ۔آپ کی صورت کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا ۔پابندیٔ وضع، استقلالِ طبع، اُولوالعزمی ،خوش تدبیری آپ کی مشہور ہے باوجودیکہ دنیاکو ترک کردیاہے مگرکوئی آپ سے مشورہ لیتا ہے تو اس میں ایسی اچھی رائے ہوتی ہے جیسے بڑے کسی ہوشیار دنیادار کی ۔''