ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
ناراض ۔اب اس آیت کا پڑھ لینا بھی آسان اور اس کا بیان کردینا بھی آسان لیکن اس پر عمل کرنا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا بہت مشکل ۔آج کوئی ہمیںپانچ کلو کا سامان اُٹھا کر چلنے کو کہہ دے تو پہلے تو ہم اُسے چار گالیاں دیں گے پھر کہیں گے کہ کیا ہم ہی تجھے ملے تھے سامان اُٹھانے کے لیے۔ لیکن ہمارے بزرگ جو تھے اُن کا مزاج ہی کچھ اور تھا، ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے مفتی حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن اللہ اُن کی قبر کو نورسے بھردے اُن کا حال یہ تھا کہ جب گھرسے نکلتے تو آس پڑوس کی بیوائوں کے جو گھر تھے اُن کے ہاں باقاعدہ دستک دے کر پوچھتے کہ بی بی اگر کچھ منگوانا ہو تو میں جارہا ہوں آپ کے لیے بھی لیتا آئوں تو کئی کئی گھروں سے بیبیاں اُن کو پیسے دے دیتیں چیزیں منگوانے کے لیے اور اگر ان میں سے کسی کی پسند کی چیز نہ ہوتی تو بدلوانے کے لیے دوبارہ جاتے سہ بارہ جاتے۔ ہمیں آج کوئی کہہ دے تو ناک منہ چڑھا کر چلے تو جائیں گے اور اگربدلوانے کا کہہ دیں توفور اًکہہ دیں گے کہ سودا لا کر دے دیا یہی مصیبت کافی نہیں ہے بس ہم تو باتیں بنانے جوگے رہ گئے ۔ایک بات یاد رکھیں کہ اگر کسی کے ساتھ نیکی نہ ہو سکے تو برائی بھی نہ کریں چنانچہ شیخ فرید الدین عطار اپنی ایک کتاب میں فرماگئے ہیں ع قوتِ نیکی نہ داری بد مکن ، اگر تم کسی کے ساتھ اچھائی نہیں کرسکتے تو اس کے ساتھ برائی بھی نہ کرو۔ لیکن ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم سے اچھائی تو ہوتی نہیں مگر بُرائی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں ۔ حضرت عمر نے ایک مرتبہ یہی آیت لوگوں کے سامنے پڑھی تو اُن سے کہا کہ یہ آیت اس اُمّت کے بارے میں اُتری تو ہے اور ہر شخص یہی سمجھتا ہوگا کہ میںاس اُمّت کا فرد ہوں ۔فرمایا ہرگز نہیں جب تک تم اپنے اندر یہ والے اوصاف پیدا نہیں کر لیتے تم اس آیت کے کامل مصداق نہیں بن سکتے ۔ پھر تیسری بات اس بہترین اُمّت کی اللہ نے یہ بتلائی کہ تم کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عظیم ترین ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور بُرا ئی سے روکتے ہو۔توجب تک ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کسی نہ کسی درجے میں پوری نہیں کریں گے ہم بہترین اُمّت کہلانے کے مستحق نہیں ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پناہ میں رکھے ہمارے گھروں کے اندر بہت سی بُرائیاں ہو رہی ہیں مگر ہماری زبانوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ اپنے دوستوں سے، اپنے کارخانوں سے، اپنی دکانوں سے، اپنے محلے سے، اپنے معاشرے سے بُرائیاں ختم نہیں کر رہے اور نہ ہی اُن کو نیکی کا حکم کر رہے ہیں۔یاد رکھیے ہم اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے نیکی کا حکم بھی دے سکتے ہیں اور بُرائی سے روک بھی سکتے ہیں مثلاً چلتے چلتے راستے میں اپنے ملنے والوں جان پہچان والوں سے کہتے چلیں کہ آئو بھئی نماز کا ٹائم ہوگیا ہے نماز پڑھ لیں، گھر میں بچوںکو نماز کی دعوت د ے دی اور اگر دیکھ رہے ہیں کہ کوئی بُرائی میں ملوث ہے بچے بُرائی کاشکار ہیں اُن کو روک دیا اپنے دوست احباب میں کوئی بُرائی کاشکار ہے تواُن کو روک دیا۔ اپنی