ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
گر کوئی شخص آپ کی زندگی کا کوئی واقعہ معلوم کرنا چاہے تو معلوم کر سکتا ہے گویاحضور علیہ السلام آسمانی تاریخ کے ایک آفتابِ عالم تاب ہیں جس میں آپ کی ذات کا ہر خدوخال نمایاں ہے ۔آپ کی زندگی کے حالات میں مختلف زبانوں میں مسلم وغیر مسلم مصنفین نے جس قدر کتابیں لکھی ہیں آج تک کسی شخصیت کے متعلق اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ احادیث : آپ کے ملفوظاتِ دینی یعنی احادیث دس لاکھ سے زائد تحریر میں آچکی ہیں اور ان کے حفاظ بھی موجود تھے جن کو یہ ملفوظات زبانی یاد تھے۔ امام احمد حنبل دس لاکھ احادیث اور امام ابوزرعہ سات لاکھ احادیث کے حافظ تھے ۔قسطلانی نے فلاس سے نقل کیا ہے کہ جو حدیث امام بخاری کو معلوم نہ ہو وہ حدیث نہیں یعنی آپ کو حضور علیہ السلام کی تمام احادیث اور ملفوظاتِ دینی یاد تھے۔ صحابہ : جن اہلِ ایمان نے حضورِاکرم ۖ کی صحبت پائی ہے یعنی آپ ۖ کے دوست اور صحابہ تھے ،ان میں سے تقریباًبارہ ہزار کے احوال تاریخ میں قلمبند ہیں۔ کیا ایسی شخصیت دنیا اور خاص کر ایسے ملک میں جو اُمّیین اور ناخواندوں کا ملک ہو، کوئی بتا سکتا ہے کہ ان کی احادیث یعنی باتیں کروڑوں انسانوں کے لیے قانونِ زندگی کی حیثیت رکھتی ہوں اور دس لاکھ کی تعداد میں قلم بند ہوں اور صدیوں تک یہی تعداد مختلف محدثین کے سینوں میں محفوظ ہو اور باہ ہزا دوستوں کے احوال بھی صحیح سند کے ساتھ اور مستند طریقے سے ضبطِ تحریر میں آچکے ہوں۔ اس سے بڑھ کر تاریخی تعارف کسی دُوسرے انسان کو تاریخی دَور کے کسی حصے میں حاصل نہیں ہُوا ہے۔ (2) ذاتی کردار : حضور علیہ الصلٰوة والسلام کا عمل چونکہ اُمتِ محمدیہ بلکہ کل اقوامِ بشریہ کے لیے اُسوۂ حسنہ اور نمونۂ انسانیتِ کاملہ تھا اس لیے دستِ قدرت نے سنتِ نبوی کی شکل میں اور اُمتِ محمدیہ صالحہ کے اعمال کی صورت میں اِس کو محفوظ رکھاتاکہ قیامت تک اگر کوئی انسان کامل بن جانے کی کوشش کرنے کا خواہاں ہو تو اس نمونہ کو سُنّت نبویہ سے حاصل کرسکتا ہے، اُسوۂ نبوی یا محمدی اس قدر ایک بحرِ ناپیدا کنار ہے کہ اس کا احاطہ ناممکن ہے لیکن ہم صرف ان میں سے چند اُمور جن کو دوست دُشمن سب تسلیم کرتے ہیں بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔