ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
ہوتا ہے ۔ایران میں بادشاہ کے خلاف انقلاب آیا قیادت علماء نے کی ، انقلاب آنے کے بعد وہاں داخلی طور پر اندرونِ ملک جوکُشت وخون کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ نہیں رُکا ،خانہ جنگی ایک طرح کی چلتی رہی حتی کہ عراق(سے جنگ) کا محاذ کھلا۔ اب یہ عراق کا محاذ کھلا ہے یا کھولا ہے ایران نے، تاکہ یہ جو (ایران میں ) اندرونِ ملک ''پاسدارانِ انقلاب''ہیں نوعمر نو خیز لڑکے بالکل پندرہ سولہ سال والے اور مسلح بھی پوری طرح ،تو یہ جو حرکتیں کرتے پھر رہے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہیں ۔ ایرانی قیادت کی'' پاسداران ''کے بارے میں سوچ : ایرانی قیادت نے سوچا کہ اِن کو اُدھر لڑائی میں لگایا جائے تو اُدھر بھیج دیا۔سُنا ہے جنت کی کنجی بھی بانٹی گئی ہے جو اُن کے گلوں میں ڈال دی گئی تھی کہ اگر تم شہید ہو گئے تو سیدھے جنت میں جائو گے تو پھر کہیں جا کر اندرونِ ملک امن ہوا اور داخلی طور پر وہ کشت وخون والا معاملہ نہیں رہا تو انقلاب مذہبی آیا لیکن ذہن مذہبی نہیں بنے تھے، مذہبی علم نہیںتھا معلومات نہیں تھیں ،تو انقلاب لانے والے جو تھے وہی لوگ تباہی کا سبب بننا شروع ہوگئے ۔ یہی کچھ بنگلہ دیش میں ہوا : یہ بنگلہ دیش میں انقلاب آیا''مکتی با ہنی ''والے لائے لیکن ہوا ایسے کہ بعد میں یہ لُوٹ مار کرتے رہے عادی ہوگئے تھے خون خار ہو گئے تھے تو پھر یہ ڈاکہ زنی کرتے تھے وہ اِن کی عادت بن گئی تھی حتی کی (بنگلہ دیش کے سابق صدر ) ضیاء الرحمن مرحوم کا مارشل لاء ہوا تو پھر وہ ختم ہوا ہے، تو ایک طرف تو جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ غیر تربیت یافتہ ذہنوں کے انقلابات ہیں اُدھر کمیونزم کا جو انقلاب آیا تو اس کے بعد دونوں طرح کے لوگوں کو انھوں نے صاف کیا طویل عرصہ دوتین سو آدمی روز مارے جاتے رہے ہیں کئی سال تک، پھر جاکر رُوس میں جو انقلاب آیا تھا وہ مستحکم ہوا اور جو انقلاب لانے والے تھے(اُن کے اپنے بے لگام انقلابی ساتھی) وہ بھی واجب القتل بن گئے ان کے نزدیک ،کیونکہ وہ اس چیز کے عادی ہوگئے تھے اور اگر انھیں چھوڑ دیا جاتا تو کبھی بھی امن نہ ہوتا اور کبھی بھی استحکام نہ ہونے پاتا حکومت کا ۔ انقلاب لانے والوں کی دوسری قسم : دوسری طرف وہ انقلاب ہو سکتا ہے جس کاذہن بن چکا ہو وہ لوگ انقلاب لائیں تو پھر اُس میں یہ خرابی نہیں ہوتی ،دونوں چیزیں بہت اچھے انداز میں چلتی ہیں امن بھی یہ بھی۔ آقائے نامدار ۖ کے صحابہ کرام جو انقلاب لائے اُن میں یہ خرابی نہیں تھی کہ کوئی زیادتی کے عادی ہوگئے ہوں رسول اللہ ۖ نے تعلیم اورتلقین کے ذریعے عفوودرگزر کا درس دیا ،فتح مکہ کے موقع پر آپ نے انتقام کا نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ تم نے میرے ساتھ جو بُرا سلوک کیا تھا تو اُس پر میں آج تمھیں ملامت بھی نہیں کرتا لاتثریب علیکم