ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
حضرت حسن بصری سے کہا : اتدری ما یقول الناس یا ابا سعید ؟ ابو سعید پتہ ہے لوگ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ پھر وہ بات کہہ دی جو لوگ کہتے تھے۔ اجتمع فی ھذہ الجنازة خیر الناس وشرالناس ۔اس جنازہ میں ایک بہترین شخص اور ایک بدترین شخص کا اجتماع ہوگیا (لوگوں کی بہترین شخص سے مراد حضرت خواجہ حسن بصری تھے اور بدترین شخص سے فرزدق)۔ حضرت حسن نے سن کر فرمایا : کلّا لستُ بخیرھم ولستَ بشرھم ولکن ما اعددتَ لھذا الیوم؟ نہ تو میں بہترین شخص ہوں اور نہ تم بدترین شخص ہو ،پر یہ تو بتائو کہ تم نے اُس دن (یعنی قیامت) کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ فرزدق نے کہا : شھادة ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہ مذستون سنة ،ساٹھ برس سے کلمۂ شہادت کی گواہی پر قائم ہوں (یہی میری تیاری ہے)۔حضرت حسن بصری نے فرمایا : ھذا العمود فاین الاطناب؟ ''بھائی کلمہ شہادت تو بمنزلہ عمود اور ستون کے ہے اس کے لیے اَطْنَابْ یعنی رسیوں کی ضرورت ہوتی ہے جن سے اُسے کھڑا کیا جاتا ہے وہ کہاں ہیں؟'' مطلب یہ ہے کہ کلمۂ شہادت تو بمنزلہ ایمان کے ہے اور کمالِ ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت ہے،نجاتِ اَبَدِ یَہ و سَرْ مَدِ یَّہْ اُسی وقت حاصل ہوگی جب ایمان کے ساتھ اعمال ہوں گے۔ حدیث شریف کے ساتھ تمسخر کا انجام : حدیث شریف میں آتا ہے حضرت کثیر بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں حضرت ابودَرْدَاء ْ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جامع مسجد دِمَشْقْ میں بیٹھا ہو اتھا کہ آپ کے پاس ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میں رسولِ اکرم ۖ کے شہر (مدینہ طیبہ) سے آپ کے پاس ایک حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے بارہ میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ وہ حدیث براہِ راست حضوراکرم ۖ سے نقل کرتے ہیں میں صرف اور صرف اس حدیث کو سُننے کے لیے آیا ہوں، میرے آنے کی اور کوئی غرض نہیں ہے ۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے رسول اکرم ۖ کو سُنا آپ فرمارہے تھے : ''من سلک طریقا یطلب فیہ علماً سلک اللّٰہ بہ طریقا من طرق الجنة وان الملائکة لتضع اجنحتھا رضیً لطالب العلم وان العالم لیستغفرلہ من فی السمٰوات و من فی الارض والحیتانُ فی جوف الماء وان فضل العالمِ علی