ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہیں ، کبھی مشاورت میں، کہیں ان میں کھڑے ان سے اطاعت کرا رہے ہیں ،انھیں انھوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ وہ کس قسم کے انسان ہیں ،اس لیے وہ ان کو پیغمبر کہتے تھے ،کوئی شہنشاہ اپنی خلعتِ فاخرہ میں ملبوس ہو کر لوگوں سے اس قسم کی اطاعت نہیں کرا سکتے جس قسم کی اس انسان نے کرائی ۔'' (٤) لین پول'' لائف آف محمد ''میں لکھتے ہیں : ''یہ کہنا کہ محمد(ۖ) بندۂ ہوس تھے غلط ہے ۔ان کی روز مرہ کی ز ندگی ،ان کا تخت بوریا جس پر وہ سوتے تھے۔ ان کی معمولی غذا ،کمتر سے کمتر کام اپنے ہاتھ سے انجام دیناظاہر کرتاہے کہ وہ نفسانی خواہشوں سے بلند وبالا تھے۔ ان کی متعدد شادیاں اُن بیوائوں سے ہوئی جن کے شوہروں نے میدانِ جنگ میں اسلام کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں ۔وہ محمد کی کشادہ دلی سے اپنی حفاظت وپناہ کا حق رکھتی تھیں ،باقی شادیاں مصلحت کی بناء پر کی گئیں ۔مخالفین کے سرداروں کو مسخر کرنے کے لیے سب سے بڑا سبب بیٹے کی تمنا تھی ، جو ان کے قدم بقدم چلے۔ سب سے پہلا ثبوت ان کی پہلی بیوی خدیجہ کے ساتھ ان کی وفاشعاری ہے کہ شروع سے آخر تک اس میں ذرہ بھر فرق نہ آیاہلکی سی بھی لغزش نہ ہوئی ۔خدیجہ کے بعد اگرچہ انھوں نے متعدد شادیاں کیں ، لیکن انھیں کبھی نہ بھولے اور آخر وقت تک یاد رکھا ۔ یہ محبت بھری یاد ایک شریف الطبع انسان ہی میں ہوسکتی ہے نہ ایک بندۂ ہوس میں ۔'' جدید دشمنوں کا اقرار : یہ حوالجات اُن مخالفینِ اسلام مورخین یورپ کے ہیں جو پیغمبراسلام علیہ السلام کی زندگی پر سخت سے سخت تر تنقید کے عادی ہیں۔انھوں نے بھی تاریخی واقعات سے مجبور ہو کر حضور علیہ السلام کی ذات کو ہوا وہوس وعام خواہشات کی دنیا سے بلند مقام عطا کیا ،یہ تو جدید دُشمنوں کا اقرار ہے۔ قدیم دُشمنوں کا اقرار : قدیم دُشمنان ِپیغمبر اسلام جن کی تمام کوششیں اور جان ومال کی ساری قربانیاں صرف اس لیے تھیں کہ آپ کو ناکام کرکے لوگوں کی نظروں میں غیر مقبول بنائیں لیکن ان دشمنوں میں سے کسی ایک دشمن نے بھی حضور علیہ السلام کے متعلق ہوا وہوس یا خواہش پرستی کا ایک حرف بھی زبان سے نہیں نکالا ۔ ورنہ مستشرقین کے لیے صرف وہی حرف نقل کردینا