ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
''ابن قیم نے احمد بن شعیب سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم بصرہ میں ایک محدث کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ انہوں نے یہی حدیث (جس میں ہے کہ فرشتے طالب ِعلم کی رضا اورخوشنودی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں) ذکر کی ،اُس مجلس میں ایک معتزلی بھی تھا وہ اِس حدیث کا مذاق اُڑانے لگا اورکہنے لگا :'' واللّٰہ لا طرقن غدا نعلی واطأ بھا اجنحة الملا ئکة ''بخدا میں کل جوتے پہن کر فرشتوں کے پروں کو روندوں گا۔ چنانچہ وہ جوتے پہن کر اپنے ذہن کے مطابق روندنے لگا دیکھتے ہی دیکھتے اس کے دونوں پائوں سوکھ گئے اور اُن میں کیڑے پڑ گئے'' ٣ ''امام طبرانی فرماتے ہیں میں نے ابن یحیٰ ساجی سے سنا وہ فرمارہے تھے کہ ہم ایک محدث کی خدمت میں جانے کے لیے بصرہ کی گلیوں سے گزررہے تھے کہ یکایک جلدی جلدی چلنے لگے، ہمارے ساتھ ایک شخص تھاجو دینی اعتبار سے بیہودہ قسم کا آدمی تھا اس نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہاکہ اپنے پائوں فرشتوں کے پروں پر سے اُٹھا لو کہیں اُنھیں توڑنہ دو (یہ بات کہہ کر) وہ اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تھا کہ اُس کے دونوں پائوں سوکھ کر کانٹا ہوگئے اور وہ زمین پر گر پڑا'' ٤ بقیہ : سیرة نبوی اور مستشرقین کہ آپ سوار ہوجائیںمیں آپ کے بدلے میں پیدل چلوں گا تو آپ یہ فرماکر سواری سے اُتر کر پیادہ چلتے کہ تم مجھ سے قوی نہیں اور میں تم سے اجرو ثواب کی خواہش کم نہیں رکھتا۔ راحت طلبی نہ تھی ،چنانچہ یہ حال تھا کہ اکثر اوقات مشغولیت کے باوجود مکان پر دربان نہ تھا ،ہر وقت ہر کوئی مل سکتا تھا ۔دن کو اکثر روزے ،رات کو خدا کی عبادت ، فوجی سپہ سالار بھی خود، چیف جسٹس بھی خود، معلم اور اُستاد بھی خود۔عزت اور وقار پرستی نہ تھی چنانچہ یہ کیفیت تھی کہ صحابہ کے ہمراہ جب چلتے تھے تو سب سے پیچھے چلتے تھے اور جب مجلس میں آتے تھے تو کوئی صحابی تعظیم کے لیے نہیں اُٹھتا تھا کیونکہ آپ نے منع فرمایا تھا کہ میرے لیے کوئی کھڑا نہ ہو ، لہٰذا جان نثار صحابہ تعمیل ِحکم سے مجبور تھے ۔ یہ سب اُمور ایسے ہیں کہ جس ذات میں رائی کے دانے کے برابر خواہش ِنفس ہو وہ قطعاً ایسا نہیں کر سکتا ۔اب صرف متعدد بیویوں کا مسئلہ رہ گیا اُس کو جدا عنوان سے بیان کرتے ہیں۔( جاری ہے ) ٣ مرقات شرح مشکٰوة ج ١ ص ٩ ٢٧ طبع امدادیہ ملتان ٤ مرقاة شرح مشکٰوة ج ١ ص ٢٧٩