ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
بہترین اُمت کہلانے کا حقدار نہیں، یعنی پھر وہ بہترین اُمت کا فرد نہیں ہوگا چاہے وہ جتنا بھی نیکی کے کام کر رہا ہو جیسے کہ میں نماز بھی پڑھ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی کو اذیت بھی پہنچا رہا ہوں توپھر میری نماز کا کوئی فائدہ نہیں ۔ میں زکٰوة بھی ادا کر رہا ہوں مگر ساتھ سود بھی کھا رہا ہوں ،چوری بھی کررہا ہوں ڈاکے بھی ڈال رہاہوں ۔ حج کا فریضہ بھی ادا کر رہاہوں مگر ساتھ ساتھ لوگوں سے ظلم و زیادتی بھی کررہا ہوں یعنی کسی کی زمین جائیدادپر قبضہ کر رہا ہوں کسی سے رقم چھین رہا ہوں ،کسی سے قرضہ لے کر ہضم کر رہا ہوں قتل اور غارت گیری کا مرتکب ہو رہا ہوں تو پھر ان نماز، روزوں ،زکٰوة اور حج کا کوئی فائدہ نہیں ۔تو ایسا شخص بہترین اُمت کے افراد میں شامل نہیں جولوگوں کی تکلیف کا سبب بھی بن رہا ہے اور لوگوں کی پریشانیوں کا سبب بھی بن رہا ہے۔ اسی سے اُن لوگوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے جو ماں باپ کو روتا چھوڑکرجماعت میں چلے جاتے ہیں ہمارے بہت سے ساتھی جو جماعت کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں وہ کیا کرتے ہیں کہ بغیر اطلاع کے گھروں سے چلے جاتے ہیں اور اس حالت میں کیا ہوتا ہے کہ بوڑھے ماں باپ رورہے ہیں، بیوی بچے رو رہے ہیں ،گھر میں اُن کی ضرورت ہے گھر میں ان کی موجودگی از حد ضروری ہے مگر پھر بھی چلے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں وہ لوگوں کی نفع رسانی کا کام نہیں کر رہے بلکہ ایک طرف نفع پہنچا رہے ہیں تو دوسری طرف نقصان کا سبب بن رہے ہیں اذیت کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمارے یہ بھائی اسی آیت کا حوالہ دے کرلوگوں کو اُکساتے ہیں مگر بھائی تم تو گھر کے افراد کوروتا ہو اچھوڑ کر جارہے ہو پریشانی کا باعث بن کر جارہے ہو،اپنی دکان کو تالہ لگا کر جارہے ہو تو پھر یہ نفع رسانی تو نہ ہوئی، تو یہ بات ان کو سمجھنی چاہیے وہ اس آیت کا مصداق تب ہی بنیں گے جب وہ لوگوں کی نفع رسانی کا کام کریں تکلیف نہ دیں نہ اپنے قول سے نہ اپنے فعل سے۔ ہم جب حضور علیہ السلام کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں آپ کے صحابہ کرام اور آپ کے خلفائے راشدین کی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ آپ نے اور آپ کے جانثاروں نے اپنی زندگیاں گھلا دیں اس اُمّت کی خاطر، اُمّت کے فلاحی کاموں میں سے کونسا کام ہے جو آپ نے اور آپ کے صحابہ نے انجام نہیں دیا ۔ حضرت عمر مدینہ کی ایک بہت عمر رسیدہ بڑھیا جو آنکھوں سے محروم تھی کے گھر کا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے اس کا سودا سلف لاکر دیتے تھے ۔ایک دن جب آپ اس کے گھر کا کام کرنے کے لیے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس بڑھیا کا کام کوئی اور ہی کرگیا ہے دوسرے دن گئے تو وہی قصہ تیسرے دن گئے تو پھر وہی قصہ تو وہ پریشان ہوگئے چوتھے دن صبح چھپ کر بیٹھ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق وہاں تشریف لائے اور سارا کام کرگئے اور یہ دورحضرت ابوبکر صدیق کی اپنی خلافت کا دور تھا ۔ یہ ہے لوگوں کی نفع رسانی کے لیے نکالاجانا۔ حضرت عمر اپنے دورِ خلافت میں بھیس بدل کر لوگوں کی خبر گیری کے لیے نکل جاتے تھے۔ایک بڑا ہی مشہور واقعہ