ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
(١) اول تو ملا علی قاری نے جو بڑے جلیل القدر محدث ہیں اپنی مشہور و معروف کتاب ''الموضوعات الکبرٰی'' میں (جس میں موصوف نے موضوع یعنی بے اصل اور من گھڑت حدیثیں جمع کی ہیں) مذکورہ بالا حدیث ذکر کرکے فرمایا کہ ''لااصل لہ ''کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت ساے استدلاسل کرنا سراسر جہالت اورگمراہی کی بات ہے۔ (٢) دوسرے اگر اس روایت کے الفاظ پر غور کریں تو ان الفاظ میں کہیں بھی صفر کے منحوس ہونے پر کوئی اشارہ نہیں ہے۔ لہٰذا ان الفاظ سے ماہ صفر کو منحوس سمجھنا محض اختراعِ اور اپنا خیال ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ (٣) تھوڑی دیر کے لیے اس روایت کے من گھڑت ہونے سے قطع نظرکرکے اگر اِس کے الفاظ پر غور کریں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات ماہ ربیع الاول میں ہونے والی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم موت کے بعد اللہ جل شانہ کی ملاقات کے مشتاق تھے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ماہِ صفر کے گزرنے اور ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا اور ایسی خبر لانے پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اِس بشارت کو مرتب فرمایا ۔چنانچہ تصوف کی بعض کتابوں میںاِسی مقصد سے اس روایت کو ذکر کیا گیا ہے لیکن ماہ صفر کی نحوست اس سے قطعاً ثابت نہیںہوتی۔ ماہِ صفر اور تیرہ تیزی : آج کل مسلمانوں میں اسلامی تعلیم کی کمی کی وجہ سے بعض ایسے خیالات پیدا ہوگئے ہیں جن کا دین وشریعت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ خواتین نے تو اِس مہینہ کا نام ہی ''تیرہ تیزی ''رکھ د یا ہے ا ور بعض جگہ اِس مہینہ کی تیرہ تاریخ کو چنے اُبال کر تقسیم کرتے ہیں تاکہ بلائیں ٹل جائیں ۔حضور اکرم ۖ نے ایسے تمام غلط عقیدوں کی اصلاح فرمائی ہے چنانچہ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ جناب رسول اللہ ۖنے فرمایا : ''عدوی (چھوت چھات) اور ہام (اُلّو) اور صفرکامہینہ(جس کولوگ منحوس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تیرہ تیزی کے مہینے میں کوئی کام اچھا نہیں) اس کی کوئی حقیقت نہیں، بغیرحکمِ خداوندی کے کچھ نہیںہوتا''۔ (مؤطا امام مالک ص ٧٢١ )