ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
کیا۔ قرآن نے فرمایا انھم لا یکذبونک کہ یہ کفار تم پر جھوٹ کا الزام نہیں دھرتے۔ پچیس سال کے جوشِ جوان کی زندگی آپ نے تجرد اور توجہ حق میں گزاری ۔پھر حضرتِ خدیجہ کی درخواست پر جو چالیس سال کی بوڑھی تھیں اور جو تین شوہروں سے یکے بعد دیگرے بیوہ ہو چکی تھیں اور دُنیا سے اُن کا دل سرد ہو چکا تھا، ایک سردارنے ہزار اُونٹ کے مہر نکاح کی پیش کش کی لیکن نکاح سے انکار کردیا۔حضرت خدیجہ پاکدامنی کی وجہ سے طاہرہ کے نام سے مشہور تھیں۔ان کے ''مسیرہ'' غلام نے سفر شام کے جو احوال انھیں سُنائے اور اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل عالمِ تورات وانجیل سے انھوں نے (حضرت خدیجہ نے)جو کچھ آنحضرت ۖ کے متعلق سُنا اُن سے حضرت خدیجہ کو یقین آگیا کہ آخری نبی آپ ہی ہوں گے ۔اس لیے از خود نکاح کی درخواست کی اور پچیس سال سے زائد عرصہ آپ نے اسی ایک بوڑھی بیوی کے نکاح پر قناعت کی اگرچہ جوان عورتوں کی کمی نہ تھی ۔اس کے بعد بھی جس قدر نکاح حضور ۖنے کیے ہیں، حضرت عائشہ کے سوا سب بیوگان تھیں ،جس پر یورپ کے مستشرقین نے اعتراض کیا اور بلاتحقیق جو جی میں آیا لکھ دیا۔ (٢) تعددِ ازدواج : چنانچہ مستشرقینِ یورپ نے تعددِ نکاح نبوی کو ہدف طعن بنایا اور اس کو نفسانیت کا رنگ دیا۔ اُن کے اِس اعتراض کے تین اجزاء ہیں : (i) قانونِ تعدد نکاح پر اعتراض (ii) نیتِ نبوی پر اعتراض کہ اس نکاح کی محرک ہوائے نفس تھی (iii) تعدادزوجات اُمّت کے حق میںچار تک ہے لیکن حضور علیہ السلام نے نو یا گیارہ تک نکاح کیے، اس فرق پر اعتراض۔ (i) قانون تعددِ نکاح پر اعتراض : ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا قانون یورپ کے خود ساختہ قانون کا پابند نہیں۔ ہم اس سوال کا جواب دوطرح دیتے ہیں ۔ (١) نقلی (٢) عقلی نقلی دلائل : یعنی یہود اور نصارٰی کی مسلم کتاب بائیبل سے پہلا حوالہ ابو الانبیا حضرت سیّدنا ابراہیم علیہ السلام سے متعلق ہے۔بائیبل پیدائش ٤/١٦میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین بیویاں بیک وقت تھیں:سارہ، ہاجرہ ،قنطورا۔ پیدائش٢٤/٢٩میں ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بیک وقت چار بیویاں تھیں :لیا،زلفہ، راخل، بلہہ۔حضرت موسیٰ