بات نہیں )
فائدہ:اہلِ علم کے جہاں بہت سارے فضائل ومناقب ہیں وہیں اُن کے تعلّق سے بہت ساری وعیدیں بھی آئی ہیں ۔ اُن وعیدوں کی روشنی میں عالمِ دین اپنا جائزہ لے تو بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی ذات سے مایوس ہوجائے کہ کون اِس امانت کا حق ادا کرسکتا ہے اور کون نقص وعیب سے پاک ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ ایسے میں یہ حدیث شریف ڈھارس کا بڑا سامان ہے جس سے یاس وقنوطیت کے بادل چھٹتے نظر آتے ہیں ۔
وہ کیا منظر ہوگا جب حشر بپا ہوگا، اللہ ربّ العزّت کرسیٔ عدل پر جلوہ افروز ہوں گے۔ اہلِ علم بھی اپنا حساب دینے کے لیے بارگاہِ صمدیت میں کھڑے ہوں گے۔ رسول کے سوا تو کوئی معصوم نہیں ، اہلِ علم بھی اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں پر گرفت کے تصوّر سے لرزا براندام ہوں گے کہ یکایک ایک مژدۂ جانفزاں سنایا جائے گا کہ:
”اے میرے بندو! میں نے اپنا علم اور حلم تمھیں عطا ہی اِس لیے کیا تھا کہ تمھاری مغفرت کروں ، اگر تمھیں عذاب دینا مقصود ہوتا تو علم وحلم کی اپنی صفت سے تمھیں متّصف نہ کرتا۔“
اُس وقت اہلِ علم کی خوشیوں اور مسرّتوں کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا، اُن کے ساتھ اللہ ربّ العزّت کے اِس فضل کو دیکھ کر کیا وہ لوگ پچھتائیں گے نہیں جن کی زبانیں علماء پر طعن وتشنیع سے تھکتی نہیں تھی، جو اُن کا استہزاء کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے تھے اور جو اُن کی کوتاہیوں کو اچھال اچھال کر دنیا میں اُن کو رسوا کرنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اُس وقت کا پچھتاوا کوئی کام نہ آئے گا۔ اہلِ علم جنّت کی طرف رواں دواں ہوجائیں گے اور اُن کے معاندین، مخالفین وحاسدین حساب دیتے رہ جائیں گے۔
٭٭٭٭