جاکر ٹھہرے گا۔
فائدہ:روحِ اسلام سے عاری اور رُشد وہدایت سے خالی جس زمانہ کے آنے کی آپﷺ اِس حدیث میں پیشین گوئی فرما رہے ہیں اُس کے بارے میں جو خاص بات آپﷺ نے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ اُس زمانہ میں سب سے بُرا کردار اور رول (Role) علماء کا ہوگا۔ اس آسمان کے نیچے سب سے بدترین مخلوق علماء ہوجائیں گے۔ وہ فتنہ فساد کا سرچشمہ اور منبع ہوجائیں گے۔ یعنی اُن کی بدنیّتی، اُن کے دلوں کابگاڑ، اُن کی بےعملی ودنیا طلبی، اُن کی شہرت وقیادت کی چھپی ہوئی خواہش اُن کو اِس بات پر آمادہ کرے گی کہ وہ سازشیں رچیں ، گروہ بندیاں کریں ، پھوٹ ڈالیں ، اہلِ اقدار سے سازباز کریں اور قوم کو دھوکہ میں رکھیں ، اُن کو مشتعل کرکے آپس میں لڑا دیں اور اِس طرح کے مختلف قسم کے فتنوں کو ہوا دیں ۔ اِس طرح ہر فتنہ وفساد کی جڑ علماء ہوجائیں گے۔ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ کا یہی مفہوم ہے۔
لیکن وَتَعُوْدُ فِیْھِمْ فرماکر آپﷺ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ وہ علماء اپنی جلائی ہوئی آگ میں خود بھی جھلسیں گے اور اپنے کھودے ہوئے گڑھوں میں خود بھی گریں گے، العیاذ باللّٰہ منہ۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ کہیں وہ زمانہ آتو نہیں گیا؟ کیا دینی مدرسوں اور اداروں میں عہدے اور منصب کے جھگڑے، مسجدوں میں ٹرسٹی شپ اور تولّیت کے تنازُعات، خانقاہوں میں سجّادہ نشینی کی لڑائیاں ، مسلم جماعتوں اور تنظیموں میں اقتدار کی رسّہ کشی اور علماء کے باہمی سخت ترین ذاتی اختلافات اِس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ وہ زمانہ آگیا ہے۔ ڈرنے کی بات یہ ہے کہیں جانے انجانے میں علمائے سوء کی اِس فہرست میں ہمارا شمار تو نہیں ۔
اللّٰھم احفظنا منہ۔ اللّٰھم احفظنا منہ۔ اللّٰھم احفظنا منہ۔
٭٭٭٭