نہیں اٹھائیں گے کہ ایک دَم سے بندوں کے دِلوں سے اُسے کھینچ لیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ اہلِ علم کو وفات دے کر علم کو اٹھالیں گے۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالمِ دین باقی نہیں رہ جائے گا تو عوام جاہلوں کو مقتدیٰ اور پیشوا بنالیں گے جن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے اور اِس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
فائدہ:قربِ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ اُس آخری دور میں قرآن وحدیث کا علم اٹھالیا جائے گا، یہاں تک کہ روئے زمین پر ایک عالمِ دین بھی باقی نہیں رہے گا۔ قربِ قیامت سے پہلے بھی فتنوں کے اِس دور میں مختلف علاقوں اور بستیوں سے اللہ تعالیٰ اپنے بعض مصالح کے پیشِ نظر علم کو اٹھا لیتے ہیں ۔ لیکن یہ علم کا اٹھا لیا جانا اِس طرح نہیں ہوتا ہے کہ ایک دَم سے اہلِ علم کے قلوب سے علم سلب کرلیا جاتا ہو، بلکہ علم اِس طرح اٹھایا جاتا ہے کہ اہلِ علم اِس دنیا سے رخصت ہوتے جاتے ہیں اور کوئی دوسرا اُن کی جگہ لینے والا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ پورا علاقہ حقیقی علماء دین سے خالی ہوجاتا ہے، پھر لوگ علمِ دین سے بےبہرا جاہلوں کو اُن کی ڈاڑھی، کرتا اور ٹوپی دیکھ کر اپنا مقتدیٰ اور پیشوا بنالیتے ہیں ۔ اُن سے دینی معاملات میں رہنمائی طلب کی جاتی ہے اور فتوے پوچھے جاتے ہیں ۔ وہ لاعلمی کے باوجود فتوے دیتے ہیں اور مسلمانوں کے معاملات نپٹاتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔
اِس حدیث سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ علمائے دین کا وجود سراپا خیر اور باعثِ رحمت ہے اور اُن کا اٹھ جانا گمراہی کا پیشِ خیمہ ہے۔
٭٭٭٭