فِي عِلْمٍ خَيْرٌ مِنْ فَضْلٍ فِي عِبَادَةٍ وَمِلَاكُ الدِّينِ الْوَرَعُ۔ (رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
(بحوالہ مشکوٰۃ: ۱/۳۶)
ترجمہ: حضرت عائشہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ عزّوجلّ نے میری طرف وحی کی کہ جو شخص علمِ دین کی طلب میں کوئی راستہ طے کرے گا، میں اُس کے لیے جنّت کا راستہ آسان کردوں گا اور جس شخص کی دونوں آنکھوں (کی بینائی) کو میں سلب کرلوں (اور وہ اِس پر صبر کرے) تو ان دونوں آنکھوں کے عوض میں اُسے جنّت دوں گا اور علم میں زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے۔
فائدہ: یہاں طلبِ علم کی فضیلت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی آنکھوں کی بینائی کے سلب کرلیے جانے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنّت کی بشارت کا ذکر اِس مناسبت سے ہے کہ زیادتی علم کا جذبۂ صادق کثرتِ مطالعہ کا متقاضی ہے، جس میں بینائی کے کمزور ہونے یا سلب ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ گویا اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ طالبِ علم کو اِس کثرت سے مطالعہ کرنا چاہیئے کہ اگر اُس کی بینائی پر بھی اثر پڑے تو اس کی پرواہ نہ کرے، اللہ اُس کا بہترین بدلہ بشکل جنّت اُسے عطا فرمائیں گے۔
تاریخِ اسلام میں ایسے باکمال علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے حصولِ علم اور کثرتِ مطالعہ کی راہ میں اپنی بینائی بھی گنوا دی۔ مفکّرِ اسلام حضرت مولانا سیّد ابوالحسن علی