فائدہ:اللہ اکبر! کیا مقام ہے طالبانِ علومِ دینیہ کاکہ محسن انسانیت سرورِ کونَین جناب محمّد رسول اللہﷺ نے خود اُن کے حق میں خیر کی وصیّت فرمائی ہے۔ اسلامی معاشرے کے چند خاص طبقوں کے بارے میں آپﷺ نے خصوصیت کے ساتھ خیر کی وصیّت فرمائی ہے۔ طالبانِ علومِ دینیہ کے لیے یہ کتنی بڑی سعادت کی بات ہے کہ اُن طبقوں میں اُن کا بھی شمار ہے اور عام مسلمانوں کو یہ تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اِن کے ساتھ بھلائی، خیر خواہی اور ہمدردی کا معاملہ کریں ۔
اِسی سے یہ بات بھی متفرّع ہوتی ہے کہ چونکہ اساتذۂ کرام ہی کا سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہےطلبۂ عزیز سے، اِس لیے طلبہ کے ساتھ سب سے زیادہ خیر خواہی بھی انہی کو کرنا چاہیئے۔ اصول وضابطہ، تادیب وسرزنش، سزا وعقاب سب اپنی جگہ، لیکن استاذ پر بہرصورت طلبہ کے تئیں شفقت ومحبّت اور خیر خواہی کا جذبہ غالب ہونا چاہیئے کہ یہ رسول اللہﷺ کی وصیّت ہے۔ راویٔ حدیث حضرت ابوسعید خدریؓکے پاس جب اُن کے تلامذہ (شاگرد) آتے تو انھیں رسول اللہﷺ کی یہ وصیّت یاد آجاتی اور وہ بڑھ کر شفقت بھرے انداز میں اُن کا استقبال کرتے۔
٭٭٭٭