ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2017 |
اكستان |
|
یاد رکھیے مال کی حفاظت اور ترقی زکوة و صدقات کے روکنے میں نہیں بلکہ اس کی ادائیگی میں ہے جیسا کہ حدیث ِ بالا سے معلوم ہوا کہ خرچ کرنے والے کے حق میں فرشتے تلافی کی دعا کرتے ہیں اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ جس مال کی زکوة حساب لگا کر ادا کردی جاتی ہے وہ مال آفات سے محفوظ ہو جاتا ہے حتی کہ ایسے بھی واقعات ہیں کہ مال چوری ہو گیا مگر پھر حیرت انگیز طریقے پر بلا کم و کاست دوبارہ دستیاب ہو گیا۔ ہمارے ایک کرم فرما دوست جو ماشاء اللہ پورے اہتمام کے ساتھ زکوة نکالتے ہیں ایک مرتبہ ان کی فرم سے کئی لاکھ روپے نقد چوری ہوگئے، بظاہر نقد روپیہ ملنے کا امکان نہیں تھا کیونکہ انہیں منٹوں میں کہیں سے کہیں بھی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن دو چار روز کے اندر ہی ان کی پوری رقم بحفاظت بر آمد ہوگئی، یہ زکوة نکالنے کی برکت نہیں تو اور کیا ہے ۔ الغر ض مالی حقوق کی انجام دہی میں بخل سے کام لینا ایک بد ترین روحانی مرض ہے جو دنیا اور آخرت دونوں جگہ ذلت اور رسوائی کا باعث ہوتا ہے حضرت علی کرم ا اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں : ''سخی شخص لوگوں کا سردار بن گیا اور بخیل شخص ذلیل ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے مال میں فقیروں کی روٹی مقرر کی ہے، کسی مالدار کی کنجوسی کے سبب ہی سے دنیا میں کوئی فقیر بھوکا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بارے میں مالداروں سے پوچھ گچھ کرے گا۔'' (الترغیب والترہیب ص ٨٦) لہٰذا ہمیں اپنے اندر سے بخل اور کنجوسی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سخاوت کی مبارک صفت سے متصف ہو کر دنیا اور آخرت کی برکتیں حاصل کرنی چاہئیں۔ (جاری ہے)