حنفی نماز مدلل ۔ احادیث طیبہ کی روشنی میں |
یرِ نظر |
|
تھا ،اِسی طرح بیس رکعات تراویح کا مسئلہ جس پر جمہور صحابہ کرام ،تابعین اور تبعِ تابعین اور تمام سلَفِ صالحین متفق ہیں ،اور اِسی وجہ سے ائمہ مجتہدین کا بھی اُس میں کوئی اختلاف نہیں ،لیکن اِس مخصوص طبقہ کے لوگ اُس اِجماع اور اِتفاق کو ماننے کیلئے تیار نہیں اور اپنے خود ساختہ نظریہ(ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے اور تَراویح کی رکعات کےآٹھ رکعت ہونے) کو دین کی حیثیت سے جانتے ،سمجھتے اور اختیار کرتے ہیں اور پھر اُسے دوسروں پر مسلّط کرنے کیلئے سرگرمِ عمل بھی ہوتے ہیں، ان کے نزدیک ہر وہ شخص جو اپنے دینی اُمور میں کسی مسلَک اور کسی اِمام کی اِتباع کرے وہ گمراہ اور راہِ حق سے ہٹا ہوا ہے۔چنانچہ فقہِ حنفی کے مطابق نماز پڑھنے والا (العیاذ باللہ)محمّدی نماز سے دور ہے اور وہ اپنی رائے اور قیاس کے مطابق عمل کررہا ہے، اور ان میں جو غالی اور متشدّد قسم کے لوگ ہیں وہ تو فقہِ حنفی کے مطابق نماز پڑھنے والے کی نماز کو نماز ہی سمجھنے کیلئے تیار نہیں ،چنانچہ بڑی شدّ و مد اور جوش و جذبہ کے ساتھ سادہ لوح عَوام کو یہ باوَر کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نماز میں رفعِ یدین نہ کرنے کی وجہ سے یا اِمام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کی وجہ سے نماز ہی نہیں ہوتی اور جتنی نمازیں زندگی بھر پڑھی گئی ہیں وہ سب کالعدم اور فاسد ہیں ۔(اَستغفر اللہ) حالآنکہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیئے کہ ائمہ مجتہدین نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ احادیثِ طیّبہ کی روشنی میں اورقرآن و حدیث کی نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے ہی بیان کیا ہے اُس میں اُن کی عقل و رائے ، قیاس اور ذاتی نظریہ و خیال کا کوئی دَخل نہیں، اور چونکہ کسی مسئلہ میں بعض اوقات روایات میں نبی کریمﷺکے قول و عمل میں بھی اختلاف ملتا ہے اِس لئے اُس میں ترجیح دینے کے اندر ائمہ کرام کا بھی اختلاف ہوا