کم ہے ۔ اور جو کسى نے خود عمل کىا مگر دوسروں کو خواہ وہ اجانب ہوں ىا اپنے متعلقىن ہوں روک ٹوک ىا تعلىم واصلاح کرنا مفقود محض ہے۔
اسى وجہ سے مدت سے اس کى ضرورت محسوس ہوتى تھى کہ کچھ ضرورى آداب معاشرت جن کا اکثر اوقات موقع اور اتفاق پڑتا ہے تحرىراً ضبط کر دىئے جائىں اور ىہ احقر مدتوں سے اپنے متعلقىن کو زبانى احتساب کرتا رہتا ہے گو اس مىں مىرى اتنى خطا ضرور ہے کہ بعض وقت مزاج مىں حدت پىدا ہوتى ہے اﷲتعالىٰ معاف کر کے اصلاح فرمائے۔اور اکثر وعظ مىں بھى اىسے امور کى تعلىم وتبلىغ کرتا ہوں مگر حسبِ قول مشہور العلم صيد و الكتابۃ قيد” جوبات تحرىر مىں ہے تقرىر مىں کہاں“ اس لئے تحرىر ہى کرنے کى ضرورت محسوس ہوتى ہے مگر اتفاق سے دىر ہوتى گئى ، خدا تعالىٰ کے علم مىں اس کا ىہى وقت مقدر تھا۔
کىف مااتفق جو بات ىاد آئے گى ىا پىش آئے گى بلا کسى خاص ترتىب کے لکھتا چلا جاؤں گا۔ اور اگر ىہ رسالہ بچوں کو بلکہ بڑوں کو بھى پڑھاىا جائے تو ان شاء اللہ تعالىٰ دنىا ہى مىں لطفِ جنت نصىب ہونے لگے جىسا کہ کہا گىا ہے ؎
بہشت آنجا کہ آزارے نباشد