فرمائش نہ کرنے لگے۔
خلاصہ ىہ ہے کہ تمام لوگوں کا تعلق براہِ راست اپنے سے رکھو، کسى شخص کو واسطہ مت بناؤ،ہاں اپنى خدمت کے لىے اىک آدھ شخص خاص کر لو مضائقہ نہىں مگر اس کو لوگوں کے معاملات مىں ذرہ برابر دخل نہ دىنے دو۔ اس طرح مہمانوں کا قصہ کسى پر مت چھوڑو، خود سب کى دىکھ بھال کرو گو اس مىں تم کو تعب زىادہ ہوگا مگر دوسروں کو تو راحت و سہولت رہے گى اور بڑے تو تعب کے لىے ہوا ہى کرتے ہىں، خوب کہا گىا ہے ؎
آں روز کہ مہ شدى نمى دانستى
کانگشت نمائے عالمے خواہد شد
اب ان آداب و قواعد کو اىک بے قاعدگى پر ختم کرتا ہوں۔ وہ ىہ ہىں کہ ان مىں بعض آداب تو عام ہىں ہر حالت اور ہر شخص کے لىے ، اور بعضے آداب وہ ہىں جن سے بے تکلف مخدوم ىا بے تکلف خادم مستثنىٰ بھى ہىں۔ چونکہ اس درجہ کى بے تکلفى تک پہنچ جانے کا ادراک وجدانى و ذوقى ہے اس لىے اىسے آداب کى تعىىن بھى وجدانِ ذوق پر چھوڑتا ہوں۔ اور اس رسالہ کو اس شعر پر جو کہ ادبِ تکلف اور